|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2016

کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر وسینیٹر عثمان خان کاکڑ ، جنرل سیکرٹری وصوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہرنائی میں نام نہاد غیر قانونی، غیر آئینی طور پر معاہدہ کر کے بھتہ خوری کی جا رہی ہے اگر وفاقی حکومت نے متعلقہ اداروں کو ان کی حدود تک محدود نہ کیا تو29 جنوری کو ہرنائی میں جلسہ عام منعقد کرینگے ان غلط اقدامات اور 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری پر حملہ اور مداخلت ہے جس کو ہم کسی صورت بھی قبول نہیں کرتے ان خیالات کا اظہارانہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں اراکین صوبائی اسمبلی سید لیاقت آغا، ولیم جان برکت اور احمد جان، کبیر افغان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ہماری پارٹی نے ہمیشہ عوامی اور اجتماعی مسائل کو ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کیا ہے کیونکہ بلوچستان کی سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہرنائی بلوچستان کا سب سے زیادہ کوئلے کے ذخائر رکھنے والا علاقہ ہے جہاں پر انگریزوں کے دور سے کوئلہ نکالا جا رہا ہے پرویز مشرف کے مارشل لاء دور میں شیخ اسلام نے کوئلہ کانوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس کو پرویز مشرف کے دست راست طارق عزیز کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی ان اقدامات کی وجہ سے مقامی لوگ بے روزگار تھے ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف عوامی سطح پر تحریک چلائی گئی جس میں ہمارے اکابرین ، بزرگ، سیاسی رہنماؤں کارکنوں کیخلاف جولائی کی شدید گرمی میں سبی میں کیسز بنائے گئے جس میں ہماری پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، پارٹی کے سینئر رہنما عبدالرحیم زیارتوال، عبیداللہ بابت سمیت 80 سالہ بزرگ بھی شامل تھے اور اس غیر قانونی الاٹ منٹ کو اسمبلی سے منسوخ کرایا اور اس کے خلاف صوبے کی عدالت عالیہ سے رجوع کیا جہاں پر شیخ اسلام نے چیف جسٹس کی توہین کی جس پر ان کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے مگر وہ 1منٹ کیلئے بھی نہ تو وہ گرفتار ہوا اور نہ ہی اس نے کوئی سزا کاٹی یہ ہماری بدقسمتی ہے صوبے میں انسر جنسی جاری ہے ہماری کوشش ہے کہ اس کو ختم کیا جائے لیکن سیکورٹی ادارے جن کا یہ فرض ہے کہ وہ امن بحال کریں لیکن وہ اپنی ذمہ داری بنھانے کے بجائے اس طرح غیر قانونی معاہدے کر کے سیکورٹی کے نام پر بھتہ خوری کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ دسمبر2014 میں فرنٹیئر کور نے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر سابق جنرل پرویز مشرف ان کے دست راست طارق عزیز اور جیالے شیخ اسلام سمیت دیگر جیالوں کھوسٹ پر مسلط کیا اور نام نہاد معاہدے کی شکل میں قبضہ گر ہو بھتہ خوری شروع کر دی اور یہ سلسلہ کچھ ایکڑز پر محیط کانوں کیلئے تھا لیکن اب ایسے پورے ضلع پر مسلط کیا گیا ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں حالانکہ بھتہ خوری، جرائم پیشہ عناصر اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں بھتہ خوری کے خلاف کا رروائیاں جاری ہے لیکن یہاں پر فرنٹیئر کور نے نام نہاد معاہدے کر کے بھتہ خوری شروع کر رکھی ہے جس کی وجہ سے مزدور ٹرانسپورٹرز اور علاقے کے عوام ان مسائل ومشکلا سے دوچار ہے کیونکہ عوام کی اس معاہدے کے بعد تلاشی کے بہانے تضحیک کی جا رہی ہے کیونکہ ہرنائی نہ تو مقبوضہ علاقہ اور عوام جنگی قیدی ہے کہ ان کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھا جائے انہوں نے ہم نے تمام جمہوری اور سیاسی طریقوں سمیت آئینی طور پر اپنی آواز پارلیمنٹ ،سینٹ اور صوبائی اسمبلی میں اٹھانے کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ سمیت اس وقت کے سابق کمانڈر سدرن کمانڈ سے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی ملاقات کرنے کے علاوہ وزیر اعلیٰ نے 14 جنوری2015 کو اس غیر قانونی معاہدے کو غیر قانونی قراردے دیا جس کے بعد10 فروری2015 کو صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس معاہدے کو ختم کیا گیا لیکن اس پر آج تک کوئی عملدرآمد نہیں اس کے علاوہ 24 فروری2015 کو ڈاکٹر مالک بلوچ نے ہماری پارٹی کے رہنماؤں کے ہمراہ سابق کمانڈر سدرن کمانڈ ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا تھا جس پر انہوں نے متعدد بار اس معاہدے کو غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اب میں اس معاہدے کو کس طرح ختم کر سکتا ہو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ بھی گواہ ہے انہوں نے کہا کہ چمالنگ کا معاہدہ بھی غلط تھا اور جس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ یہ10 سال کیلئے ہوگا اور آئندہ اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہو گا جس کی مدت ختم ہو چکی ہے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم جو کہ پارلیمنٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد کی بعد منظور کی تھی کیونکہ خان شہیدعبدالصمد خان1931 میں صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا تھا جس کیلئے ہمارے اکابرین اور شہداء نے بھی جیلیں کاٹی ہیں انہوں نے کہا کہ سابق کمانڈر سدرن اور آئی جی ایف سی نے آئین وقانون کے خلاف اٹھارویں ترمیم کے صوبائی خود مختاری میں مداخلت کی ہے ہم نے متعلقہ حکام کو آگاہ کر نے کے بعد ایک سال تک انتظار کیا کہ ان کی خلاف کا رروائی ہو گی لیکن شنوائی نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ معاملات ہماری برداشت سے باہر ہیں وفاقی حکومت تمام اداروں کو اپنی حدود تک محدود کرے تاکہ مسائل پیدا نہ ہو ں ان اقدامات کے خلاف29 جنوری بروز جمعہ صبح10 بجے ہرنائی میں جلسہ ہو گا اگر فرنٹیئر کور اور متعلقہ اداروں نے اپنے آپ کو ان معاہدوں سے دستبردار نہ کیا تو ہمارا پرامن احتجاج چلتا رہے گا کیونکہ فرنٹیئر کور کا کوئٹہ چمن شاہراہ سمیت دیگر علاقوں میں بھی نا روا اقدامات جاری ہیں فرنٹیئر کور کا فرض ہے کہ وہ امن کو بحال کرے لیکن وہ اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے کولز کے معاہدے کر کے بھتہ خوری میں لگے ہوئے ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ10 فروری 2015 کے فیصلے کو بھی نہیں ما نا نہیں جا رہا ہے حالانکہ تمام سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کے فیصلوں پر متفق ہے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہرنائی پرامن علاقہ ہے وہاں پر کوئلہ کے معاملے پر ایک گولی بھی نہیں چلی متعلقہ غیر مقامی لوگوں نے اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا اخبارات میں آئی جی ایف سی کی ایماء پر بڑے بڑے اشتہارات شائع کئے اور آج بھی اسمبلی چوک پر بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کئے گئے ہیں ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ مائنز ایکٹ کے تحت متعلقہ علاقے اور ضلع کا مقامی شخص ہی الاٹمنٹ کرواسکتا ہے اس حوالے سے2004 میں قرارداد پاس کی تھی انہوں نے کہا کہ لوہڑ چمالنگ معاہدے کی بھی مخالفت کی ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فی ٹن کوئلہ پر220 سے250 روپے لئے جا رہے ہیں اور روزانہ15 سے20 لاکھ روپے سیکورٹی کے نام پر بھتہ لیا جا رہا ہے۔