|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2023

ملک میں اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث موضوع پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری کیس ہے۔ حکمران جماعتوں نے بنچ پر اعتراضات اٹھائے ہیں خاص کر دو ججز کے متعلق حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک نے سماعت کے دوران تحفظات سامنے رکھے۔ بہرحال حکومت اوراپوزیشن دونوں کی جانب سے اس کیس پر جملے بازی اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ ملک میں آئین کی بالادستی انتہائی ضروری ہے اور یہ کام ہی پارلیمان کا ہے کہ وہ آئین اورقانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے پہلے خود اپنا کردار ادا کرے جو سیاسی معاملات ہوتے ہیں انہیں پارلیمان میں حل کیاجائے، قانونی پیچیدگیاں جب پیدا ہوتی ہیں تو معاملات عدالت کے پاس جاتے ہیں۔

لیکن ایک تاریخ ہمارے ہاں ضرور رہی ہے کہ سیاستدانوں پر ماضی میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں جس کے ازالے کی بات کی جاتی ہے ۔قانون سے بالاتر کوئی نہیں ،تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تو یقینا معاملات بہتر طریقے سے آگے چل سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا گیا، منتخب نمائندگان کو غیر جمہوری عمل سے ہٹایا گیاجبکہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ۔یہ تاریخ کے وہ حصے ہیں جو اب بھی تقاضہ کرتے ہیں کہ ملک میں منصفانہ نظام ضرور ی ہے جب تک انصاف کا عمل شفاف نہیں ہوگا ملک میں آئینی بحران سراٹھاتے رہیں گے اور مسائل اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔

بہرحال پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور اب عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی ہے۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ صدر کی دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں،کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں، 2008 میں انتخابات کی تاریخ آگے گئی تھی۔اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ تو قومی سانحہ تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آج الیکشن کا اعلان کریں گے تو 90 دن کی حد پر عمل نہیں ہوسکتا۔

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں تاریخ تو دیں پھر ہوتا ہے یا نہیں، پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں، جہاں آئین خاموش ہے وہاں قوانین موجود ہیں،کل کیس ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سماعت کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرلیے۔دوسری جانب پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کردیا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے،چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا ہے کہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔بہرحال اب تک سپریم کورٹ کے سینئر ججز کی بنچ میں شامل ہونے پر جونکتہ اٹھایاگیا ہے وہ اپنی جگہ برقرار ہے یہ بھی ایک مسئلہ ہے جسے دیکھنا چاہئے۔ تمام اداروں کاوقارآئین سے اور اپنے عمل سے وابستہ ہے اس سے پارلیمان بھی بری الذمہ نہیں اس لیے جہاں آئین کے خلاف یا پھر مرضی اورمن پسند جیسے معاملات مزید بحرانات کا سبب بنتے ہیں ان پر زیادہ توجہ دینا ضروری ہے۔