|

وقتِ اشاعت :   March 2 – 2023

گوادر بندرگاہ کے ذریعے روس سے گندم کی درآمد شروع ہو گئی ہے ،معاہدے کے مطابق 9بحری جہازوں کے ذریعے مجموعی طور پر 450,000 میٹرک ٹن گندم درآمد کی جائے گی اور اس سلسلے میں پہلا بحری جہاز ایم وی لیلا چنئی 50,000 میٹرک ٹن گندم لے کر گوادر بندرگاہ پہنچ گئی ہے ۔ گندم کی درآمد ، ان لوڈنگ ،سٹوریج اور اس کی ترسیل کیلئے چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان، پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ، پاکستان کسٹمز اور نیشنل لاجسٹکس سیل اپنا اپنا کردار ادا کریں گے جس کے لئے تمام انتظامات پہلے ہی مکمل کر لئے گئے ہیں۔

ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان اور گوادر انٹرنیشنل ٹرمینل لمیٹڈ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت گوادر بندرگاہ کے ذریعے روس سے450,000 میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی جائے گی۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین پسند خان بلیدی نے بتایا کہ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے 30 نومبر 2022 کو گندم کی درآمد کے لئے ٹینڈر کھولا تھا، 7ویں بین الاقوامی ٹینڈر اور جی ٹو جی پیشکش کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے روسی کمپنی پروڈنٹروج کی جانب سے دی گئی سب سے کم بولی کی منظوری دی۔

کمپنی کی جانب سے جی ٹو جی 372ڈالر فی میٹرک ٹن کی بولی دی گئی جبکہ معاہدے کے مطابق 450,000 میٹرک ٹن گندم کادرآمدی آپریشن 2 مارچ سے 31 مارچ 2023 تک ہوگا۔معاہدے کے مطابق گوادر بندر گاہ سے اندرون ملک نقل و حمل پر کوئی بھی اضافی لاگت پاسکو برداشت کرے گی جو گندم کے سٹاک کے اجرا ء کے وقت صوبوں سے وصول کیاجائے گا ۔اتنے بڑے حجم میں گندم کی درآمد کا معاہدہ خطے میں ایک لاجسٹک مرکز کے طور پر گوادر بندرگاہ کی فطری صلاحیت کو بہتر بنانے کی طرف ایک غیر معمولی پیشرفت ہے جو پاکستان کی معیشت میں جی ڈی پی میں 10 ارب ڈالر کا حصہ ڈالے گا، انہوں نے گوادر بندرگاہ کے ذریعے گندم درآمد کرنے کو ایک نیا سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ گندم کی درآمد سے گوادر میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔

اس سے مقامی سطح پر روزگار کی صلاحیت کو بھی فروغ ملے گا کیونکہ جب درآمدی گندم کی ان لوڈنگ ، سٹوریج اور ترسیل کیلئے سر گرمیاں شروع ہوں گی تو اس کے لئے یہاں بڑے پیمانے پر ہنر مند، نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہو گی۔انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ سے گزشتہ ماہ کامیابی سے یوریا کی نقل و حمل بھی کی گئی ہے اور اب تمام متعلقہ محکموں سے بلوچستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے مختلف منصوبوں پر عملدرآمد کی جارہی ہے۔گوادر بندرگاہ میں تجارتی سرگرمیوں سے یقینا معاشی حوالے سے بلوچستان میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اول روز سے اس بات پر زور دیا جارہی ہے کہ گوادر کے محل وقوع اور اس کے ساحل کے ذریعے تجارتی حوالے سے بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت چاہ بہار پورٹ کے ذریعے ایران تجارت کرکے اربوں ڈالر منافع کمارہا ہے سینٹرل ایشیاء سے لے کر دیگر ممالک کے ساتھ بڑے معاہدے کیے گئے ہیں ۔

گوادر کو ہی ترجیح دیتے ہوئے ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالاجاسکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ مستقل بنیادوں پر تجارتی معاہدے کیے جائیں خاص کر سینٹرل ایشیاء سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ریلوے ٹریک، شاہراہ کی تعمیر کرتے ہوئے اسے منسلک کیاجائے تو ترسیل کا فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے بیشتر ممالک پاکستان کو تجارتی حوالے سے ترجیح دینگے۔ بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ روس سے گندم کی درآمد شروع ہو گئی ہے امید ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی جلد معاہدہ کرکے موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کی جائے گی۔