مسلم لیگ ن کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف کی ایک بار پھر وطن واپسی کا عندیہ ن لیگ کی قیادت نے دیا ہے، میاں محمد نواز شریف رمضان المبارک سے چند روز قبل یا پھر پہلے عشرے کے درمیان ہی ملک واپس آئینگے۔
اس سے قبل بھی ن لیگ کی قیادت کی جانب سے یہ بتایا گیاتھا کہ نوازشریف جلد وطن واپس آکر الیکشن مہم چلائینگے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مسائل اپنی جگہ موجود ہیں کیسز کا سامنا انہیں کرنا ہے جس کے لیے یقینا وہ موافق ماحول چاہتے ہیں کہ انہیں ماضی کی طرح پیشی پر پیشی کے دوران رگڑا نہ دیاجائے۔
دوسرا مسئلہ یہ کہ ن لیگ کے اندر اس وقت اختلافات موجود ہیں جنہیں نواز شریف نے حل کرنا ہے۔تیسرا بڑا مسئلہ ملک میں موجودہ مہنگائی کی بدترین صورتحال اور عوام کا غم وغصہ ہے۔جب عام لوگوں کے درمیان نواز شریف جائینگے جلسے جلوس کرینگے تو ان کے پاس حکومتی کارکردگی کے حوالے سے کیابیانات ہونگے کیونکہ فی الحال معیشت کے حوالے سے ماحول بہتر دکھائی نہیں دے رہاہے جبکہ آئندہ دو تین ماہ کے دوران مزیدمہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا تو کیا بیانیہ لیکر جائینگے۔ اس وقت ن لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز بھرپور طریقے سے جلسے جلوس کررہی ہیں جبکہ ورکرز کنونشن میں بھی تیزی لائی ہے اور ان کے نشانے پر اس وقت سابق ڈی جی آئی ایس آئی، پانامہ کیس فیصلے کے ججزہیں جن پروہ نشتر برسارہی ہیں جبکہ مریم نواز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترازو کے دونوں پلڑے جب تک برابر نہیں ہو نگے الیکشن کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا یعنی اس وقت الیکشن کے حوالے سے حکومت تیار نہیں ہے مگر کوئی آئینی آپشن اور جواز موجود نہیں کہ وفاقی حکومت انتخابات نہ کرائے۔
البتہ سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتنی رقم اس وقت موجود نہیں کہ الیکشن کرائے جائیں۔ بہرحال آگے چل کریہ تنازعہ کھڑا ہوجائے گا اور پھر سے ایک نیا بحران سر اٹھائے گا۔ بہرحال نواز شریف نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے فوراًبعد اپنی جماعت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ حکومت ن لیگ نہ لے مگر میاں محمد شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے ساتھ ملکر حکومت بنالی۔ اب جو بھی مسائل اس وقت ملک میں معاشی حوالے سے موجود ہیں ان کا ملبہ براہ راست ن لیگ کے اوپر گرچکا ہے جس سے وہ چھٹکاراحاصل نہیں کرسکتا۔ اگر آنے والے ایک دوماہ کے دوران کوئی معجزہ ہوجائے، معیشت بہتری کی طرف جائے۔
تو پھر ن لیگ کے لیے الیکشن مہم چلانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی اور نوازشریف کو وہی بیانیہ اپناناہوگا جو مریم نواز نے اب تک اپنایا ہوا ہے کیونکہ بعض معلومات نواز شریف کے پاس ہیں کہ ان کے ساتھ بطور وزیراعظم کیا کچھ ہوا،کیسے انہیں نکالاگیا اوراس میں کون کون سے کردار شامل تھے۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ سابق چیف جسٹس سعید آصف کھوسہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے نواز شریف سے درخواست کی تھی جس پر نواز شریف راضی نہیں ہوئے تھے۔
اور یہ بات گزشتہ روز مریم نواز بتاچکی ہیں۔ اگر نواز شریف آتے ہیں پارٹی معاملات، مضبوط بیانیہ، معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کرتے ہیں تو پھر ن لیگ کے لیے الیکشن کے نتائج میں کچھ بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کی آمد کب ہوگی اور کس طرح سے وہ سیاسی اور معاشی معاملات کو پارٹی سطح پر لیکر چلیں گے۔ مرکزی قائدین جو اس وقت ناراض ہوکر خاموش بیٹھے ہیں انہیں کس طرح منائینگے تاکہ ن لیگ کے ووٹ بینک پر اثر نہ پڑے کیونکہ پی ٹی آئی کے پاس اس وقت کچھ نہیں صرف مہنگائی کا ہی بیانیہ ہے دیگر بیانیے دم توڑ چکے ہیں جسے مات دینا ن لیگ کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔