کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزراء میر اسد اللہ بلوچ اور انجینئرزمرک خان اچکزئی کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ، دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات،ایوان نے تعلیمی اداروں، مساجد، مدارس کو بجلی و گیس کے بلوں میں استثنیٰ دینے کی قرار داد منظور کرلی جبکہ صوبے میں گیس پریشر کے مسئلے کے حل کے لئے ڈپٹی اسپیکر نے سوئی گیس کے جی ایم کو مراسلہ لکھنے کی رولنگ دے دی، امن و امان اور سی ٹی ڈی کے مسئلے پر آئی جی پولیس کو پیر کو طلب کرلیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو آدھے گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں بی این پی کے رکن احمد نواز بلوچ نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک میں سوئی گیس کے پر یشرمیں کمی کامسئلہ ہےv
جی ایم سوئی سدرن کو صوبائی اسمبلی میں طلب کیاجائے۔جس پر ڈپٹی اسپیکر نے جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کوسحراورافطار میں گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے مراسلہ لکھنے کی رولنگ دی اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں اب تک بلڈوزر گھنٹوں کے پیسے جاری نہیں ہوئے جس کی وجہ سے زمیندار پریشانی کا شکار ہیں صوبے میں بارشیں جاری ہیں ایسی صورتحال میں بلڈوزر گھنٹوں کی اشد ضرورت ہے زمیندار یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا جارہا ہے جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ بلڈورز گھنٹوں کا عدم اجراء پورے صوبے کا مسئلہ ہے۔صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبائی وزیر خزانہ انجینئر زمر ک خان اچکزئی نے پانچ ماہ سے تیل روکا ہوا ہے جسکی وجہ سے بلڈوزر گھنٹے نہیں دئیے جارہے وہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس وجہ سے رقم کا اجراء روکا ہے۔
بلڈوزر گھنٹے غیر ترقیاتی بجٹ میں موجود ہیں ہمیں ریلیز ملے تو فوری طور پر 300بلڈوزروں کے ذریعے کام شروع کردیں گے۔صوبائی وزیر خزانہ انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ بجٹ میں ابھی بھی کمی بیشی ہے سیکرٹری نے کہا ہے کہ بجٹ میں اتنی گنجائش نہیں کہ ہم بلڈوزر گھنٹوں کا اجراء کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں ہزاروں گھنٹے دئیے گئے او ر انکی رقم بھی ریلیز ہوئی مگر وہاں ایک گھنٹہ بھی بلڈوزر نہیں چلا میں ڈپٹی کمشنر سے فہرست طلب کرونگا کہ کس کو کتنے گھنٹے دئیے گئے ہیں۔
اور اس کے مطابق کام کرونگا جس کے بعد جواب میں صوبائی وزیر زراعت میراسد اللہ بلوچ نے کہا کہ اگر صرف ایک ضلع کا مسئلہ ہے تو اسکے فنڈز روکے جائیں۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ وزیر خزانہ خود یہ روکنا چاہتے ہیں جس کے جواب میں وزیر خزانہ زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ زراعت میں ٹرانسفر پوسٹنگ کیسے ہورہی ہیں ہمیں سب پتہ ہے مجھے وزیر نہیں بلکہ انکے محکمے میں دیگر لوگوں کر اعتراض ہے وزیر ہمیں سننے کو تیار ہی نہیں وہ ہمارے دوست ہیں ہم انکے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا چاہتے ہیں۔اس موقع پر بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں سیلاب کے بعد بلڈورز گھنٹے فوری طور پر چلنے چاہیے تھے کوئٹہ کے 9ہزار گھنٹے ہیں مگر ایک بھی گھنٹہ نہیں ملا میرے حلقے میں ہنہ اوڑک،زڑخو، مارواڑ میں صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلڈورزر گھنٹوں اور سیلاب کے بعد آنے والی بیج کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی لوگ مختلف محکموں میں خالی آسامیوں پر بھرتی ہوئے ہیں انکی فہرست ایوان کو مہیا کی جائے۔صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ ماضی میں ایم پی اے کے فنڈ میں بلڈورزر گھنٹے شامل ہوتے تھے عدالت سے اس فنڈ کی بندش کے بعد اب یہ اختیار وزیراعلیٰ کے پاس ہے۔جمعیت علماء اسلام کے رکن عبدالواحد صدیقی نے کہا کہ وزراء اپنے مسائل آپس میں حل کریں۔
اور عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کریں۔ صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبائی وزیر خزانہ محکمہ زراعت میں گریڈ 18کی پوسٹ پر گریڈ 17کے شخص کو تعینات کرنا چاہتے تھے میں نے انہیں کہا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو دوسرا شخص عدالت جائیگا اس لئے وہ گریڈ 18کے افسر کا نا م دیں۔جمعیت علماء اسلام کے رکن اصغر علی ترین نے کہا کہ یہ 2وزراء کا آپس کا مسئلہ ہے انکی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں جتنے بھی گھنٹے ممکن ہوسکیں فوری طور پر ریلیز کئے جائیں۔صوبائی وزیر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ مجھے ٹرانسفر پوسٹنگ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
وزیر زراعت ایک شخص کو کہتے ہیں کہ آجاؤ اور دوسرے کو کہتے ہیں کہ عدالت جاؤ اب جب تک ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار کی رپورٹ نہیں آئیگی فنڈز ریلیز نہیں کریں گے۔اس موقع پر دونوں وزراء کے درمیان چپقلش ہوئی او دونوں نے ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگائے میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ اگر انہوں نے کرپشن کی ہے تو ثبوت پیش کئے جائیں کہاں کرپشن ہوئی جس کے جواب میں انجینئرزمرک ں اک اچکزئی نے کہا کہ گھپلے ہورہے ہیں بطور وزیر خزانہ میرا فرض ہے کہ 1ارب روپے کی رقم سے فوائد حاصل کرنے والوں کی تفصیل حاصل کروں وزیر زراعت نے اپنی جماعت کو بھی تقسیم کردیا ہے۔وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ جب سے زمرک خان اچکزئی کو محکمہ خزانہ ملا ہے وہ لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں موجودہ حکومت کو لانے اور صوبے میں رجیم تبدیلی میں ہم کھڑے ہوئے تھے وزیر خزانہ اس وقت بھی ہماری مخالفت میں تھے۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں وزراء کو خاموش کروا دیا۔اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے کی عدم موجودگی پر وقفہ سوالات موخر کردیا گیا اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے رکن سید عزیز اللہ آغا نے کہا کہ سوالات کے جوابات نہ آنا اور وزراء کی عدم موجودگی المیہ ہے۔اجلاس میں میر عارف جان محمد حسنی کا توجہ دلاؤ نوٹس بھی متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی کی بناء پر موخر کردیا گیا۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے رکن میر اکبر مینگل نے کہا کہ ضلع خضدار میں سی ٹی ڈی نے پانچ نوجوانوں کو دو ہفتے قبل گرفتار کیا ہے جن کا تاحال کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی سی ٹی ڈی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اب ایک بار پھر کاروائیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے مصالحت او مفاہمت کی قرار داد پیش کی تھی مگر صوبے اور ملک میں نہ مفاہمت اور نہ ہی مصالحت کی گنجائش موجود ہے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں مائل بلوچ کے مسئلے کو بھی پیچیدہ بنایا گیا ہے جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے اراکین اسمبلی کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر آئی جی پولیس بلوچستان کو پیر کے اجلاس سے قبل دوپہر 2بجے اسمبلی طلب کرلیا۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ وزراء آپس کے مسائل کو کابینہ میں حل کر سکتے ہیں۔
ایوان میں اس قسم کی گفتگو درست نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عوام کے لئے صوبے میں حکومت کی تبدیلی میں ساتھ دیا مگر ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود صوبے میں بہتری نہیں آئی ہماری تجاویز پر عملدآمد نہیں کیا جارہا عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے انہیں لگتا ہے کہ تمام آسامیوں فروخت ہوتی ہیں وزراء اپنے حلقوں سے ہٹ کر بھی کسی علاقے کا دورہ کریں۔انہوں نے کہا کہ 9ہزار استاتذہ کی بھرتی سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کے ذریعے کی جارہی ہے جس کے سیاست کی نذر ہونے کا خدشہ ہے لوگ احتجاج کر رہے ہیں اگر ہم نے توجہ نہیں دی تو لوگ عدالت جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب آن لائن فارم ہے۔
تو 400کا ٹی سی ایس کیوں لیا جارہا ہے سرحدوں پر سختی سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے حکومت ان معاملات پر توجہ دے۔اجلاس میں بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے تمام شعبوں میں پسماندگی کا شکار ہے کاروبار اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے صوبے کے عوام بنیادی ضروریات جیسے پانی،گیس، صحت اور دیگر سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں مزید براں تعلیمی ادارے، مدارس، مساجد اور بجلی و گیس سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ جن مدارس مساجد اور اسکولوں میں یہ سہولیات میسر ہیں وہ بل ادا نہ کرنے کے باعث بند کردئیے گئے ہیں۔
لہذا یہ ایوان صوبائی حخومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبے کے تمام مساجد، مدارس و اسکولوں کو بجلی و گیس کی سہولیات کی مسلسل فراہمی اور ان کو بل کی ادائیگی سے مکمل استثنیٰ فراہم کرے۔قرار داد کی موضونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ خیبر پختونخواء میں 6500مساجد سولر پر منتقل کی گئی ہیں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مساجد،مدارس اور سکولوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ مساجد میں عبادات اور سکولوں میں تدریس کا عمل متاثر نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے آنے والے بجٹ میں بھی منصوبے شامل کئے جائیں۔ پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے کہا کہ سردی میں بچے اسکول جارہے ہیں مگر وہاں نہ تو بجلی ہے۔
اور نہ ہی گیس محکمہ تعلیم کا کوئی بھی افسر کسی بھی ضلع میں اپنی جگہ پر نہیں ملتا افسران کا پتہ نہیں وہ کیاکر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزراء اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے محکموں پر کنٹرول رکھیں اور انتطامی افسران سے کام لیں۔انہوں نے کہا کہ ایک ایک فائل کئی کئی دن آگے نہیں بھیجی جاتی جب تک فائل کو پہیہ نہ لگے وہ آگے نہیں چلتی ہمیں ہر فائل کے پیچھے جانا پڑتا ہے کیا اراکین اسمبلی کا یہی کام رہ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ملازمین بلوچستان میں ہیں لیکن پھر بھی کام نہیں ہورہے۔ رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ قرار داد میں ترمیم کرکے مکمل استثنیٰ کے بجائے مخصوص یونٹ لکھے جائیں تاکہ بجلی اور گیس کا ضیاع روکا جائے۔بی این پی کے رکن میر اختر حسین لانگو نے کہا کہ کوئٹہ میں قائم اسکولوں میں بجلی،گیس اور پانی کی سہولیات موجود نہیں ہیں وزراء ایک دوسرے کا خیال تو رکھتے ہیں مگر جو عام اراکین ہیں جنکے پاس محکمہ نہیں ہے انکے حلقوں کو یکسر طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ انتقامی کاروائی ہورہی ہے جام کمال کے دور میں حکومت کی تبدیلی کے لئے ہم نے ماحول بنایا تھا مگر ہماری جماعت کے ساتھ آج بھی انتقامی سلوک کیاجارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کیسکو نے میرے حلقے ٹیوب ویلوں کی بجلی کاٹ دی ہے،حلقے میں کئی دنوں سے گیس نہیں ہے، حکام کو بلانے سے مسائل حل نہیں ہونگے ہمیں تمام اراکین اسمبلی کو لیکر سوئی جانا چاہیے اور جب تک بلوچستان کو اسکی گیس نہیں ملتی دیگر علاقوں میں جانے والی گیس کے وال بند کردینے چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت مختلف محکموں میں خالی آسامیوں پر جلد از جلد بھرتی کا عمل شروع کرے۔بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔