کوئٹہ: وفاقی وزیر سیفران جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سادہ نہیں بلکہ بہت مشکل ہے اور اس کی مختلف جہتیں ہیں اور اس کی تاریخ بہت پرانی ہے جب تک کہیں بھی پائیدار اور مستقل بنیادوں پر امن نہ ہو وہاں ترقی نہیں ہوتی اس کے راستے میں رکاؤٹوں کو دیکھنا ہو گااور یہ دیکھنا ہو گا کہ آج تک ان رکاؤٹوں کو دور کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان اور سماجی تنظیم ڈیورٹ بلوچستان کے زیر اہتمام ’’خوشحال وترقی یافتہ بلوچستان‘‘ کے عنوان سے منعقدہ دو روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا سیمینار سے صوبائی وزیر رحمت بلوچ، سردار یار محمد رند ودیگر نے بھی خطاب کیا۔ صوبے میں پانچویں انسرجنسی جاری ہے جس پر قابو پانے کیلئے بہت سے اقدامات کئے جا چکے ہیں اور صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنیکی کوشش کی گئی ہے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ وہ کونسے مسائل ہیں جو اب تک ہمیں در پیش ہیں صوبے کا ایک بڑا مسئلہ تو سیاسی ہے دوسرا مسئلہ معاشی اور تیسرا مسئلہ تعلیم کا ہے یہاں پر1970 میں جمہوریت آئی اور 1970کے عشرے میں انتخابات ہوئے مگر اس کے بعد بلوچستان کے انتخابات میں اسلام آباد کا عمل دخل رہا بعض اوقات اسلام آباد کی خواہش پر صوبے میں قیادت آئی سو فیصد نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور رہا یہی وجہ ہے کہ آج یہاں 68سال بعد بھی اسلام آباد کی طرف دیکھا جاتا ہے جمہوری عمل میں تمام چیزوں کو عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ کیا فیصلے کرتے ہیں اور بلوچستان کے عوام کو فیصلے کرنے کے اختیارات دئیے جائیں اور ان کی خواہشات کو اولیت دی جائے بلوچستان کے عوام کی اونر شپ کو یقینی بنایا جائے خواہشات کی بجائے عوام کی خواہش پر فیصلے کئے جائیں انہوں نے کہا کہ صوبے میں معیشت کا مسئلہ اہم ہے خاص طورپر بلوچستان کے بلوچ علاقوں صورتحال زیادہ توجہ طلب ہے صرف میرا حلقہ ہزاروں کلومیٹر پر مشتمل ہے صوبائی حکومت کی جانب سے مجھے کوئی ترقیاتی فنڈز نہیں ملتے جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صرف دس کروڑ روپے ملتے ہیں اس میں ترقی نا ممکن ہے دوسری جانب صوبے کا بلوچ علاقہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جبکہ فنڈز برابری کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے ایک مسئلہ ملازمتوں کا بھی ہے جس کے مواقع انتہائی کم ہیں جہاں پر انسرجنسی کے خاتمے کیلئے کارروائیاں ہو رہی ہیں وہاں ترقیاتی کام زیادہ ہونے چاہئیں تا کہ لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ صرف آپریشن نہیں ہو رہا بلکہ ان کی ترقی کیلئے کام بھی ہو رہا ہے وفاقی وزیر مملکت برائے پٹرولیم جام کمال خان نے کہا کہ مسائل بہت ہیں اور انہیں ڈسکس کرنا چاہئے ہماری ضروریات ہیں سی پیک انتہائی اہم ہے حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو کیسے ترقی دیتے ہیں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے بتایا کہ گزشتہ ڈھائی سالوں کے دوران جرائم کی شرح میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی ہے بحالی امن کی ان کوششوں میں 10 ہزار سے زائد سویلین نے بھی جانیں قربان کی ہیں موجودہ حالات کی بہتری سے قبل1 لاکھ سے زائد لو گوں نے نقل مکانی کی تھی انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں رہتے ہوئے تمام لو گوں سے بات چیت کیلئے تیار ہیں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ڈھائی سالوں کے 600 کے لگ بھگ فراریوں نے ہتھیار ڈالا کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا جنہیں ریاست کی طرف سے تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ گزشتہ 68سال کے دوران بلوچستان کے عوام کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا لیکن امید ہے کہ آج کا یہ سیمینار جس میں ملک بھر کے صحافی اساتذہ دانشور اور دیگر شریک ہیں صوبے کی ترقی کیلئے ترقی ساز ثابت ہو گا انہوں نے کہا کہ یہاں 68سال کے دوران مایوسی اور غیر یقینی صورتحال رہی مگر گزشتہ دو سال کے دوران صوبے میں عسکری و سیاسی قیادت نے ایک پیج پر آ کر صوبے کے مسائل کے حل اور مشکلات کو دور کیا وہ خوش آئند ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں چیزوں کو مصنوعی طریقے سے یا کاسمیٹکس سرجری کے ذریعے بغیر تشخیص کئے درست کرنیکی کوشش کی گئی ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے مرض کی تشخیص کی جاتی اور پھر اسے درست کیا جاتا ایک جانب صوبے کے شورش زدہ علاقے اور دوسری جانب شعبہ صحت تھا مشکل دور میں صوبے کے صحافیوں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا 2013 کے انتخابات کے موقع پر نواب ثنا اللہ زہری کے بچوں نے جان کی قربانیاں دیں اس جدوجہد کا مقصد صوبے کو امن دینا اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا محکمہ صحت کا یہ عالم تھا کہ گزشتہ پندرہ سال کے دوران اس کیلئے کوئی مشینری نہیں خریدی گئی جو چند مشینیں موجود تھیں وہ بند پڑی ہوئی تھیں ہم نے آ کر نئی مشینری خریدی جو اس وقت مکمل طور پر فعال ہے ہماری کوششوں سے زچگی کے دوران ماں اور بچے کی شرح اموات میں بڑی حد تک کمی آ گئی ہے پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی چیف آرگنائزر سردار یار محمد رند نے کہا کہ بد قسمتی سے ہم آج بھی مسائل سے دوچار ہیں جس کی ذمہ داری جتنی دوسروں پر عائد ہوتی ہے اتنے ہی ہم بھی ذمہ دار ہیں 1970 تک تو ون یونٹ تھا مگر اس کے بعد تو ہمارے ہی لوگ یہاں کامیاب ہو کر آتے رہے یہاں ناراض بلوچ رہنماؤں کی بات ہوئی ہے جو لوگ ناراض ہو کر اس وقت ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں وہ صوبے کے کسی نواب یا سردار سے ناراض ہو کر نہیں گئے حکومتوں کو دیکھنا چاہئے کہ ان کے باہر جانے کی کیا وجوہات ہیں آیا وہ درست ہیں یا غلط ہیں انہوں نے کہا کہ ملک کے قیام سے لیکر اب تک صوبے میں یہ پانچویں انسرجنسی ہے 90 کی دہائی تک صوبے کے حالات بالکل پر امن تھے کوئی ملک کے خلاف بات نہیں کرتا تھا انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی درست نہیں کہ سرداروں کے کہنے پر ہی لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں سچ بولنا چاہئے بلوچستان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا یہاں پر ہر دور میں کرپشن کا سلسلہ جاری رہا مگر کسی آنے والے نے کسی جانے والے حکمران کا صرف اس لئے احتساب نہیں کیا تا کہ کوئی آنیوالا بھی اسے نہ چھیڑے گوادر کی آبادی مختصر ہے مگر ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کا میں نے کئی سال قبل اس وقت کے حکمرانوں کو آگاہ کر دیا تھا معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے تو باتیں اتنی آگے نہ بڑھیں اس وقت بھی بلوچستان کو وفاق میں صرف سیفران کی وزارت دی گئی ہے میں خود تین سال اس کا وزیر رہا اور اس میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ جس سے صوبے کیلئے کوئی کام کر سکتا۔