وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، کاش چیف جسٹس اس بات کا خیال کریں اور فل کورٹ تشکیل دیں ۔چیف جسٹس نے ایسے شخص کو ساتھ بٹھایا جس کے خلاف کرپشن کے سخت ترین الزامات لگے ہیں۔ملک میں دہرا معیار نہیں چل سکتا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 3 رکنی بنچ کی جانب سے اس طرح کے پیچیدہ اور متنازع معاملے کا فیصلہ جاری کرنا 100 فیصد انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ میں چند روز قبل اسمبلی میں تقریر کی، اس کے اگلے دن چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی لوگ جیلیں کاٹ کر اسمبلی میں تقریریں کرتے ہیں۔ ایک مؤقف اور سوچ کے لیے جیل کاٹنے کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے، کریمنل کیسز میں انصاف پسند جج کے ہاتھوں کے جیل کاٹنا بہت تحقیر کی بات ہے، عمران نیازی کے پاس صرف ایک بات تھی کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیلوں میں بجھوایا جائے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے جب نیب گٹھ جوڑ سے مجھے جیل بھجوایا تو لاہور ہائیکورٹ کے فُل بینچ نے میری ضمانت دی اس کے بعد عمران نیازی اور اس کے حواریوں کی جرأت نہیں ہوئی کہ سپریم کورٹ جاکر میری ضمانت منسوخی کیلیے پٹیشن دائر کریں۔ میرا جرم تھا بطور اپوزیشن لیڈر عمران نیازی کی حکومت کی غلط کاریوں اور تباہ کاریوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتا تھا ، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے توسط سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال سے پوچھنا چاہتا ہوں میرے بارے میں یا دوسروں کے بارے میں تو آپ نے فرما دیا کہ آج اسمبلیوں میں تقریریں کرتے ہیں، انہوں نے جیلیں کاٹیں ہیں۔ کیا ہمارے خلاف جو بے بنیاد کیسز تھے، کیا ہم ضمانت کی حد تک سرخرو ہو کر آئے ہیں یا پھر خدانخواستہ ہم بے عزت ہو کر آئے ہیں، میں چیف جسٹس سے یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسا جج جس کے خلاف بہت حد تک سخت الزامات لگے ہیں، آپ کو ساتھ بٹھا کر قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف تو عمران نیازی اور اس کے حواریوں نے بے بنیاد الزامات لگائے، پھر میرٹ پر ضمانتیں لے کر یہ لوگ اس ہاؤس میں آئے ہیں، بطور عوام کے نمائندے ہمارا حق ہے ہم ان کی ترجمانی کریں۔ چیف جسٹس نے ایسے شخص کو ساتھ بٹھایا جس کے خلاف کرپشن کے سخت ترین الزامات لگے ہیں، یہ عدل کا ملک میں سب سے بڑا ادارہ ہے ، آپ دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ مجھے اگر کوئی بات کرنی ہے تو سب سے پہلے میں اپنے گریبان میں جھانکوں گا، یہ ہی قانون سب پر لاگو ہوتاہے، چیف جسٹس اس پنڈورا بکس کا ذکر کردیتے جو عمران خان حکومت نے ایف آئی اے میں درج مقدمے کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو بجھوایا، اس میں اللہ نے مجھے سرخروکیا، انہوں نے میرے خلاف ڈیلی میل میں جھوٹی خبر چھپوائی، یہ ڈبل اسٹینڈرز، یہ دہرا معیار نہیں چلے گا، آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں، اگر یہ بات ہے تو مریم نواز بھی تو پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں، اس کو جیل سے گرفتار کیا گیا۔ مریم نواز کو دو بار گرفتار کیا گیا، کئی کئی ماہ ڈیتھ سیل میں رکھا گیا۔ جیل میں کیمرے لگائے گئے، نا وہ پبلک آفس ہولڈر تھیں نہ کوئی ایک بھی الزام ان پر ثابت ہوا۔ اور دوسری طرف پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ہر سازش کرنے والی کو کچھ نا کہا جائے کیونکہ وہ آسمان سے اتری ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ دہرا معیار پاکستان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دےگا، آج بھی وقت ہے ورنہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور آنے والی نسلیں تاریخ میں ہمیں کسی اور نام سے یاد کریں گی۔ اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں عدالتی بائیکاٹ نہیں بلکہ کارروائی پر عدم اعتماد کے اظہارکافیصلہ ہواتھا۔ وزیرقانون جس میٹنگ کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین، زعما اورماہرین قانون کی میٹنگ تھی، مسلم لیگ (ن) کے صدرکی حیثیت سے اس اجلاس کی صدارت میں نے کی تھی۔ اجلاس میں فیصلہ ہواتھا کہ موجودہ بنچ پرعدم اعتماد کااظہار کیاجائے گا، بائیکاٹ کالفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔