کوئٹہ: بلوچستان کے وزیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر امن امان کی صورتحال بے حد تشویشناک ہے۔
کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی قوم پرستی کے نام پر شدت پسندی کی آگ بھڑکائی جاتی ہے نجی ٹی وی سے خصوصی انٹرویو میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پروان چڑھانے میں تین عناصر درکار ہوتے ہیں۔ان میں پہلا پہلا مالی معاونت ہے، پاکستان میں دہشت گردی پروان چڑھانی ہو تو بھارت اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے، اسی کے ساتھ ہی بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتاضیا اللہ لانگو کے مطابق دہشت گردی کے فروغ میں دوسرا عنصر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں کارروائیاں کرکے سرحد عبور کر جاتے ہیں، جہاں افغانستان میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیںاس حوالے سے مزید نشاندہی کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ اندرونی امداد وہ تیسرا عنصر ہے جو دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ملک میں شرپسندوں کو مختلف عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔
جس کی وجہ سے دہشت گرد قانون سے بچ جاتے ہیںایک سوال کے جواب میں ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقعی ہوئی ہے۔ جیسے ہی افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہو جائے گا دہشت گردی میں واضح کمی واقع ہوگی، اس کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کو شدت پسندوں سے مقابلے کرنے کے لیے جدید خطوط پر تربیت دی جائے گی پاک افغان سرحد پر باڑ کی تکمیل سے متعلق سوال کے جواب میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پاک فوج کو سلام پیش کرتا ہوں جو محدود وقت و وسائل کے باوجود ہنگامی بنیادوں پر اتنی طویل باڑ لگانے کا کام انجام دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے کا کام جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا، تاہم ملک میں امن صرف باڑ لگانے سے نہیں بلکہ بہتر سفارتی تعلقات بحال کرنے سے آئے گااس سوال پر کہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی ایک خطرناک دہشت تنظم ہے اس پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ میر ضیا اللہ لانگو نے کا کہنا تھا کہ جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک نہیں ہوں گے تب تک کالعدم تنظیموں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ صرف حکومت یا طاقت کے استعمال سے شدت پسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور جب ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو ایوان میں تمام سیاسی جماعتیں جب کہ سڑکوں پر سول سوسائٹی نکل آتی ہے۔
اور اگر شدت پسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں نہ لائی جائے تو کہتے ہیں کہ حکومت سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ایسے میں میرا ماننا ہے کہ جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں ہوں گے تب تک دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکے گامیر ضیا اللہ لانگو نے گرفتار مبینہ خود کش بمبار خاتون ماہل بلوچ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے دین میں عورت کا ایک خاص مقام ہے، جنگ میں بھی خواتین، بچوں اور بزرگوں کو استثنی حاصل ہے۔ ہماری روایات میں اگر لڑائی ہو رہی ہو اور خاتون نکل آئے تو ہم لڑائی ختم کر دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں شرپسند عناصر خواتین اور بچوں کو میدان میں لے آئے ہیں۔ گزشتہ برس ہمارے دوست ملک چین سے آئے مہمانوں کو خاتون خود کش بمبار نے نشانہ بنایا۔
جس کے بعد اس خود کش بمبار کو ہیرو بنایا دیا گیا۔ کیا حکومت کو ایسی خاتون کے سر پر دوپٹا پہنانا چاہیے تھا؟دیکھیں اگر ہمیں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں جنس کا لحاظ ختم کرنا ہوگا اگر کوئی دہشت گردی میں ملوث ہوگا تو اسے سزا دی جائے گیایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جس دن مجھے وزیر داخلہ کا عہدہ ملا تب سے میری کوشش یہی رہی ہیکہ لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے لاپتا افراد کے ورثا کی بات سننا بھی ضروری ہے۔
اس کے علاوہ حقائق کیا ہیں، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے میر ضیا اللہ کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں افغانستان میں 40 سے زائد ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں موجود تھیں جن کی مداخلت بلوچستان میں بھی تھی ایسے میں یہ پتا لگانا کافی مشکل تھا کہ لاپتا ہونے والے شخص کو کس نے اٹھایا ہے، جو ایک پیچیدہ معاملہ تھا۔ تاہم لاپتا افراد کے معاملے پر حکومت نے ان کے اہلِ خانہ سے ملاقاتیں کیں ہیں اور معاملے کو حل کیا جارہا ہے کیا بلوچستان میں سرداروں کی نجی جیلیں موجود ہیں؟ اس سوال کے جواب میں میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے فیک نیوز کی بھرمار ہوگئی ہے، لوگ بنا کسی تصدیق کے خبر کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
بارکھان واقعے میں ہم نے دیکھا کہ پہلے ایک واویلا مچایا گیا کہ کنویں سے گران ناز کے لاش برآمد ہوئی ہے، لیکن اس کے بعد وہی خاتون منظر عام پر آگئی۔ اس معاملے سے متعلق میں نے تمام اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو خط لکھا تھا، جس کا متن یہ تھا کہ کیا آپ کے علاقوں میں نجی جیلیں موجود ہیں؟ تاہم اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے کوئی تصدیق نہیں کی۔ جہاں تک بات کی جائے بارکھان واقعے کی تو خان محمد مری کے اہل خانہ کو ان کے حوالے کیا گیا اور اب معاملے عدالت میں موجود ہے۔
آئندہ انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے کردار سے متعلق سوال پر صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں۔سیاسی جماعتوں میں افراد کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے، اس سے جماعت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ماضی میں مسلم لیگ ق ایک مضبوط جماعت تھی آج اس کی حالت دیکھیں، لیکن ایسی صورت حال میں بھی جماعت قائم ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات ایک عام سے بات ہے۔ تاہم ان لوگوں سے ضرور رابطہ کریں گے جو ہم سے ناراض ہیںگز شتہ برس سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی سے متعلق صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔
محکمے کی فنڈنگ بھی اتنی زیادہ نہیں۔ پی ڈی ایم اے کا کام ریسکیو اینڈ ریلیف کا ہے، جو ہم نے بخوبی سر انجام دیا۔ گزشتہ برس جب بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے سبب سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو وزیراعلی بلوچستان نے ہدایت کی کہ صوبے کے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنے لوگوں کو ریلیف فراہم کریں، سیلاب سے متاثرہ اپنے لوگوں کی امداد کے لیے ہم نے وفاقی حکومت سے ایک روپیہ نہیں لیا۔ اب وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں کی داد رسی کریں۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے ڈونر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈونرز نے دل کھول کر امداد دی۔ اس امداد میں بلوچستان کا جو حصہ بنتا ہے وہ فوری طور پر ہمیں دینا چاہیے اگر یہ حصہ ہمیں ابھی نہ ملا تو یہاں کے لوگ بدترین حال کو پہنچ جائیں گے