کراچی : بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف )کی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کراچی پریس کلب میں بی این ایف کے خاتون رہنماؤں کی موجودگی میں ٹیلیفونک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اس وقت جس انسانی بحران سے گزر رہی ہے اس کی مثال دور حاضر میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک ایسے جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کررہا ہے کہ جہاں پر کوئی بھی خود کو فورسز سے محفوظ نہیں سمجھتا۔ریاستی مشینری سیاسی کارکنوں و بلوچ عوام کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے متحرک ہیں۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ چائنا کی بلوچستان میں کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے اعلان اور بلوچ عوام کی ان سرمایہ کاریوں کی مخالفت کے بعدریاست نے پہلے سے جاری ان کاروائیوں میں انتہائی شدت لائی ہے۔ ان استحصالی منصوبوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے والے سیاسی پارٹیاں ایک خاص حکمت عملی کے تحت فورسز کے نشانے پر ہیں۔ اپنے اس حکمت عملی پر ایک دہائی سے باالعموم اور چائنا کی سرمایہ کاری کے اعلان کے بعد بالخصوص فورسز انتہائی تندہی سے عمل پھیرا ہیں۔ یہ تمام منصوبے چونکہ بلوچ عوام کی مرضی و منشاء کیخلاف ہیں، اس لئے ریاست ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو تمام نوآبادیاتی منصوبوں پر ریاستی بیانیہ کی حمایت نہیں کرتے۔30جنوری کی صبح عظیم سیاسی رہنماء بلوچ نیشنل فرنٹ کے سابق سربراہ اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک بانی رہنماء اورمرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ کو انکے چار دیگر ساتھیوں سمیت بلوچستان کے علاقے مستونگ میں بی این ایم کے کارکن کے گھر پر چھاپے کے دوران انتہائی قریب سے گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی بلوچستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود بلوچ عوام کی اپنی سرزمین و تاریخ اور اپنی آزادی کی تحریک سے والہانہ و بے لوث وابستگی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بلوچ قوم اپنے فطری حق آزادی کی جدوجہد سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو نگے۔ ہزاروں عظیم بلوچ فرزندان کی شہادت بلوچ عوام کے لئے حوصلہ اور اور مقصد پانے کے لئے یقین کا باعث ہیں۔ ڈاکٹر منان و ساتھیوں کی شہادت بلوچ عوام کی تحریک آزادی سے وابستگی کو مزید پختہ کرے گی۔ بلوچ عوام کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اپنی جان سے گزرنے والے عظیم لیڈران کی یہ ہمت، یہ یکسوئی اور بلوچ جدوجہد و آزادی کے عظیم مقصد سے یہ وابستگی انسانی تاریخ کے سفر میں رائیگاں نہیں جائیگی۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ سیاسی لیڈران کو قتل کرکے انہیں مذاحمت کار قرار دینے کا جھوٹا دعویٰ مضحکہ خیز ہے ، لیکن اس من گھڑت جھوٹ کے بارے میں میڈیا کے ان اداروں نے بھی کوئی سوال پوچھنا گوارا نہیں کیا جنہوں نے بی این ایم و بی این ایف کے مرکزی رہنماء اور سیاسی رہنماء کی حیثیت سے ڈاکٹر منان بلوچ سے انٹرویو لئے تھے۔ میڈیا کا یہ دو غلا رویہ اس بات کی عکاس ہے کہ ریاستی تمام ادارے اپنے پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے برعکس بلوچ عوام کی قتل عام و لیڈران کی ٹارگٹ کلنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ ایک سیاسی و جمہوری جدوجہد پر یقین رکھنے والی پارٹی کے سربراہ کواس طرح گھر میں گھس کر قتل کرنا دنیا کے تمام قوانین کی خلاف ورزی اور سنگین جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر بندش کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کے ردعمل میں ہونے والی ہڑتال کو ناکام بنانے کے لئے فورسز نے خاران، تربت و بلوچستان کے دیگر شہروں میں کئی بند دکانوں و کاروباری مراکز کے مالکان کو دھمکیاں دے کر ہڑتال ختم کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی، ناکامی پر فورسز نے بند دکانوں کے تالے توڑ کر اپنی طرف سے تالے لگا کر دکانوں کو سیل کردیا۔ کریمہ بلوچ نے کہاکہ ریاست اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے بلوچستان کے مسئلے کو اپنا اندرونی مسئلہ کہہ کر اس مسئلے کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن دنیا کو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلوچستان کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ کسی تیسرے فریق کی موجودگی کا متقاضی مسئلہ ہے۔ کریمہ بلوچ نے چائنا کی بلوچستان میں سرمایہ کاری کاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا چائنا و دوسرے ممالک کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلوچستان میں بلوچ عوام کی مرضی کے برعکس ہونے والی سرمایہ کاری کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ آزاد بلوچ ریاست کی بحالی سے قبل بلوچ عوام کسی صورت بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دے سکتے۔