|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2023

 

ایران سے تعلقات کی بحالی کے بعد سعودی عرب ایک عرصے سے خانہ جنگی سے دوچار شام کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے عرب ممالک کے علاقائی اجلاس کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعہ کے روز جدہ میں نو ملکی مذاکرات شام کے وزیر خارجہ کے پہلے غیر اعلانیہ دورے پر کے بعدمنعقد ہوں گے جو 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے شام کے وزیر کا سعودی عرب کا پہلا دورہ ہے۔

یہ واقعات ناقابل یقین محسوس ہوتے تھے لیکن سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی کی بدولت سات سال بعد تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے ہیں۔

یمن میں سعودی سفیر نے اس ہفتے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے ساتھ بھی بات چیت کی ہے جس کا مقصد 2015 سے جاری تباہ کن خانہ جنگی کو ختم کرنا ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں، سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ نے بیجنگ میں ملاقات کے دوران شورش زدہ خطے میں سلامتی اور استحکام لانے کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا تھا۔

بدھ کو اس سلسلے میں اس وقت اہم پیشرفت ہوئی جب گیس کی دولت سے مالا مال قطر اور اس کے چھوٹے خلیجی پڑوسی بحرین نے طویل عرصے سے جاری سفارتی جھگڑے کو ایک طرف رکھتے ہوئے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

سعودی عرب اور ایران طویل عرصے سے خطے میں اثر و رسوخ کے لیے کوشاں ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اب خطے کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اپنے اندرونی منصوبوں پر توجہ مرکوز کر سکے جن کا مقصد توانائی پر منحصر اپنی معیشت کو متنوع بنانا ہے۔

جمعے کے روز خلیج تعاون کونسل کے چھ ممالک بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مصر، عراق اور اردن کے وزرا اور اعلیٰ حکام جدہ میں ملاقات کریں گے۔

اس اجلاس میں شام کی عرب لیگ سے معطلی پر گفتگو کی جائے گی جو 2011 میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے جمہوریت کے حامی مظاہروں کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کے بعد سے معطل ہے۔

بشار الاسد کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے لیکن مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے اور اسے وحشیانہ خانہ جنگی کے سبب وہ مغرب میں ایک فرعون تصور کیے جاتے ہیں۔

تاہم بدھ کو سعودی عرب کے بیان کے مطابق شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد اور ان کے سعودی ہم منصب نے شام کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

ریاض میں مقیم ایک سفارت کار نے کہا کہ اگرچہ 22 ملکی عرب لیگ اتفاق رائے سے فیصلے کرتی ہے لیکن متفقہ معاہدے کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد شام کے بارے میں خلیجی ممالک کے مابین اختلافات کو ہر ممکن حد تک دور کرنا ہے۔