کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ لاپتہ افراد پر عدلیہ اورحکمرانوں نے آنکھوں پر کالی پٹیاں اور ہونٹوں پر تالے لگائے ہیں،خیبرپشتونخوا میں آپریشنوں میں اپنے گھر بار چھوڑنے والوں کے ساتھ وعدے بہت ہوئے لیکن آج تک کسی نے حال پرسی نہیں کی اور ان کے بچے کچے گھر بھی ملیامیٹ کردئیے گئے، آدھی راتوں کو تو عدالتیں لگاتے ہیں آدھی راتوں کو کورٹ کے عملے کو نیند سے بیدار کرکے سوموٹو لیتے ہیں لیکن کبھی اس آدھی رات کو سلگتی ہوئی ماں کی چیخ وپکار بھی توسنیں جب مالک مکان اپنے گھر کے دروازے پر تختی لگائیں کہ آؤاورلوٹ کر جاؤ تو پھر اس گھر کا اللہ ہی حافظ ہے ناانصافی،ظلم زیادتی خونی رشتوں کو توڑ دیتی ہے ۔
یہ رشتہ تو پھر بھی خونی نہیں، پارلیمان کااحتساب تو ہوتاہے لیکن چند ڈالروں کااحتساب ہوسکتاہے چند اربوں کا احتساب ہوسکتاہے ملک دولخت ہوتاہے اس کا کوئی احتساب نہیں،کسی کا بیٹا کسی کی اولاد والدین کے سامنے گولیاں مارکرچلنی کیاجاتاہے اس کا کوئی احتساب نہیں ہوتا
۔ان خیالات کااظہار انہوں نے یو این اے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ پارلیمان کااحتساب تو ہوتاہے لیکن چند ڈالروں کااحتساب ہوسکتاہے چند اربوں کا احتساب ہوسکتاہے ملک دولخت ہوتاہے اس کا کوئی احتساب نہیں،کسی کا بیٹا کسی کی اولاد والدین کے سامنے گولیاں مارکرچلنی کیاجاتاہے اس کا کوئی احتساب نہیں ہوتا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کیلئے کمیشن تشکیل دیاتھا جس کامقصد ملک کے مختلف اداروں میں زیر تعلیم بلوچستان کے طلباء کی ہراسانی سے متعلق تھا وہی کمیشن تھی جب ہم کوئٹہ گئے لوگ اسی آسرے میں تھے کہ شاید یہ ہمارے لوگوں کوبازیاب کرائے۔ایک شخص آیاکہ 2009ء میں اس کا بیٹا اغوا کیاگیا اس نے کہاکہ کوئٹہ تک آنے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے اس نے اپنے گھر میں موجود برتن اور فریج بیچ کر صرف اپنی درخواست جمع کرنے کیلئے کوئٹہ پہنچا تھا یہ عدلیہ جس کی ایک ہاتھ میں ترازواورآنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہے بلوچستان میں واقعی انہوں نے کالی پٹیاں باندھی ہوئی ہے اس باپ کادرد انہیں نظر نہیں آتا اس ماں کی چیخ وپکار کوئٹہ سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کرتی ہوئی آئی ایک بیٹا جس کی عمر 9سال تھا وہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک پیدل سفر کیا۔
بین الاقوامی میڈیا نے اس کو ہائی لائٹ کیا لیکن ہمارے حکمران اور عدلیہ اس پر خاموش تماشائی کا کرداراداکررہے ہیں،آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہونٹوں پر تالے لگے ہوئے ہیں جب میڈیا نے اس معاملے کو اجاگرکرنے کی کوشش کی تھی تو پھر حامد میر کی مثال سب کے سامنے ہیں بدبخت پسٹل میں صرف 6ہی گولیاں تھیں 12ہوتی تو وہ بارا ہی مارتے اس پر کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا نہ ہی ان شہداء جو اس دہشتگردی میں مارے گئے کوئی ان کے گھر گیا حال پرسی کی بچوں کیلئے روٹی ہے عدلیہ نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ناردرن علاقوں میں جو آپریشن کیاگیا اور لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر چلے گئے،انہوں نے کہاکہ اپنا علاقہ چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہر حکومتوں نے وعدے کئے جو بچے کچے گھر تھے آخر میں ان کو بھی ملیامیٹ کیاگیا لیکن اس کے بدلے میں کئی لوگوں نے مال ودولت کمائی اندرون ملک وبیرون ملک وہ ڈالر جو دہشتگردی کے خلاف استعمال ہونے تھے انہوں نے جاگیریں لی یورپ اور آسٹریلیا میں بڑے بڑے منشن لئے،کہے نہ اس عدالت کو،یہ پارلیمنٹ ان کو بلائیں کونسی پنڈ کی زمین تھی جو آسٹریلیا میں جائیدادیں خریدی گئی اگر ہم یہ نہیں پوچھ سکتے تو پھر ہم صرف وہ ڈرامے کررہے ہیں جو بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں مجھے وہی ڈرامے لگ رہے ہیں۔
ایک زمانے میں ای اسٹینڈرڈ کے ڈرامے تھے وہ بچے تھے اب وہ بوڑھے ہوگئے ہیں ہم بھی جوان سے بوڑھے ہوگئے لیکن یہاں کے حالات تبدیل نہیں ہوئے کیونکہ سپریم نہ آپ ہے نہ وزیراعظم ہے نہ جوڈیشری ہے میں نے اس دن بھی کہاتھا کہ چائے ہی سپریم ہے،انہوں نے کہاکہ سزا اپنی جگہ اب تک تو کسی نے پوچھا بھی نہیں لیکن ان کو خوش کرنے کیلئے ہم نے بہت کچھ کیاجو بھی ریٹائرڈ ہوا انہیں پارٹی میں لیاگیا کسی کو سینیٹر بنایاکسی کو ایم این اے بنادیا لوگوں کودکھائیں کہ ہمارے ساتھ بھی ڈنڈے والاہے ہم ایسے خالی نہیں ہے۔
یہ وقت ضرورت ہمیں بھی کام آئیں گے لیکن جب ایسی کوئی بات ہوتی ہے تووہ اپنے ہی پاس جاتے ہیں آپ کے کام نہیں آئیں گے،پی سی او کے ججز کو احترام دیا اس سے زیادہ کیاتھا؟انہوں نے کہاکہ سب سے زیادہ ذمہ داری پارلیمان پر عائد ہوتی ہے جب خود مالک مکان اپنے دروازے پر یہ تختی لگائیں کہ آؤ اور لوٹ کر جاؤ تو پھر اس گھر کااللہ ہی حافظ ہے ہم نے اپنے عمل سے آج تک یہی کیا کہ ہم نے یہ تختی لگالی کہ آؤ اور لوٹ کر جاؤ،ادارے ہمارے لئے قابل احترام لیکن احترام اس وقت ہوگی جب وہ ہمیں انصاف فراہم کرینگے،ناانصافی،ظلم زیادتی خونی رشتوں کو توڑ دیتی ہے ہم،آپ اور ان اداروں کے رشتے خونی نہیں،جب ناانصافی،ظلم وزیادتی پرخونی رشتے ٹوٹ سکتے ہیں توپھرغیر خونی رشتے کی بھی کوئی قدر نہیں کرے گا،انہوں نے کہاکہ آدھی راتوں کو تو عدالتیں لگاتے ہیں آدھی راتوں کو کورٹ کے عملے کو نیند سے بیدار کرکے سوموٹو لیتے ہیں لیکن کبھی اس آدھی رات کو سلگتی ہوئی ماں کی چیخ وپکار بھی توسنیں،وزیراعظم کواعتماد کی 180ووٹ ملے ہیں لیکن کم از کم 180لوگوں کو بازیاب کرے جتنی خوشی آج ڈیسک بجاکر کیاگیا اتنی ہی خوشی ان لاپتہ افراد کے لواحقین کو دیاجائے۔