|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2023

سوڈان کا دارالحکومت خرطوم جنگ بندی کے باوجود بھی آج صبح فضائی حملوں، طیارہ شکن ہتھیاروں اور توپ خانوں کی زوردار آوازوں سے گونج اٹھا جہاں اب تک لڑائی کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 512 ہوگئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق سوڈان میں دو فوجی جرنیلوں کے درمیان شروع ہونے والی جنگ تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے جہاں دارالحکومت خرطوم آج صبح بھی فضائی حملوں، طیارہ شکن ہتھیاروں اور توپ خانے کی زوردار آوازوں سے گونج اٹھا جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں دھویں کے سیاہ بادل چھا گئے۔

رپورٹ کے مطابق جمعے (28 اپریل) کے روز جنگ بندی میں 72 گھنٹوں کی توسیع کے باوجود بھی حریف فوجی قوتوں کے درمیان جنگ جاری ہے اور دارلحکومت اور اس کے آس پاس کے شہروں کو فضائی حملوں، ٹینکوں اور توپ خانوں کے حملوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔

خیال رہے کہ 15 اپریل کو فوج اور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان شروع ہونے والی اس جنگ میں سیکڑوں جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد اپنی زندگی بچا کر وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

سوڈان میں اقتدار کے حصول کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے جاری کوششیں مہلک ترین تشدد میں تبدیل ہوگئی ہیں جہاں 2021 میں فوجی حکومت قائم کرنے والے فورسز کے 2 جرنیلوں آرمی چیف عبدالفتح البرہان اور ان کے نائب طاقت ور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد ہمدان دیگلو کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

عمر البشیر 1989 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے اور 2019 میں ہونے والی عوامی بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا، دو سال بعد آر ایس ایف کی حمایت سے جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں فوج نے بغاوت کر کے اقتدار سنبھال لیا۔

فوج اور آر ایس ایف کے رہنما جنرل محمد حمدان دگالو کے درمیان موجودہ تنازع اس بات پر اختلافات کے باعث شروع ہوا کہ پلان کے مطابق سول حکمرانی کی بحالی کے تحت آر ایس ایف کو فوج میں کتنی جلدی ضم کیا جائے۔

علاوہ ازیں دونوں فوجی جرنیلوں کے درمیان جاری اس جنگ نے مغربی شہر دارفر میں دو دہائیاں پرانے تنازع کو بھی متحرک کردیا ہے جس کی وجہ سے رواں ہفتے درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے۔

فوج دارالحکومت کے علاقوں میں آر ایس ایف فورسز پر جیٹ طیارے یا ڈرون تعینات کر رہی ہے جہاں بہت سے افراد جنگ کی وجہ سے خوراک، ایندھن، پانی اور بجلی کی قلت کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں سے جاری اس جنگ میں کم از کم 512 افراد ہلاک اور تقریباً 4 ہزار 200 افراد زخمی ہوچکے ہیں لیکن حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کے پہلے ہفتے میں سوڈان میں 75 ہزار سے زائد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اس وقت دارالحکومت میں صرف 16 فیصد ہسپتال فعال ہیں۔

غیر ملکی طاقتوں کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی آج رات تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

آر ایس ایف نے فوج پر الزام عائد کیا کہ فوج نے اومدرمان میں اس کے اڈوں پر فضائی حملے کرکے خلاف ورزی کی، تاہم فوج نے بھی آر ایس ایف پر خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔

دونوں فوجی جرنیلوں کے درمیان جاری اس پرتشدد جنگ نے دسیوں ہزار پناہ گزینوں کو سوڈان کی سرحدوں کے پار جانے پر مجبور کردیا ہے اور ساحل اور بحیرہ احمر کے درمیان افریقہ کے ایک غیر مستحکم علاقے میں عدم استحکام پیدا کرنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

غیر ملکی حکومتوں نے اپنے شہریوں اور سفارت کاروں کو محفوظ طریقے سے وہاں سے نکال لیا ہے اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس کے انخلا کا عمل (آج) مکمل ہوگا۔

امریکا نے کہا کہ کئی سو امریکی شہری زمینی، سمندری اور ہوائی راستے سے سوڈان سے روانہ ہوئے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی شہریوں کی انخلا کے لیے شروع کی گئی پہلی کوشش میں 300 امریکیوں کو لے کر بسوں کا ایک قافلہ خرطوم سے 850 کلومیٹر کے سفر پر بحیرہ احمر کے لیے روانہ ہوا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان نے کہا کہ دارفور میں فوج اور آر ایس ایف کے تنازع کے نتیجے میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں رواں ہفتے سے اب تک کم از کم 96 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔