بلوچستان میں مردم شماری کی شفافیت پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے ایک تو بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بہت بڑاعلاقہ ہے اور اس کی آبادی منتشر ہے۔
دشوار گزار پہاڑی علاقے پھر دور دراز چھوٹے قصبے یہاں مردم شماری و خانہ شماری کیسے ممکن ہے؟اونٹوں پر سوار عملہ کہاں کہاں تک رسائی حاصل کرسکے گی اور زمینی حقائق کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ بلوچستان کے چند علاقے انتہائی حساس بھی ہیں وہاں کیسے اس عمل کو پورا کیا جائے گا،بلوچستان کے حالات کی وجہ سے ایک بڑا مسئلہ بلوچ علاقوں سے بڑے پیمانے پرلوگوں کی نقل مکانی بھی ہے۔
آج تک افغان مہاجرین کی واپسی نہیں ہوسکی اور اس حوالے سے بلوچ قوم پرست جماعتیں بارہا اپنی تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
کہ ان مہاجرین کو مردم شماری میں گنا جارہا ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود دیگر اضلاع سے یہ شکایات سیاسی جماعتیں کررہی ہیں کہ مردم شماری کے نام پر مذاق کیا جارہا ہے سیلاب کے بعد لوگوں کے گھر تباہ ہوئے وہ اپنے حلقوں میں موجود نہیں یعنی ان کی مردم شماری نہیں ہوگی جبکہ یہ بھی نشاندہی کی جارہی ہے کہ بعض علاقوں میں گھروں کے افراد کو گنا نہیں جارہا ہے، مردم شماری کے مکمل ہونے سے قبل ہی معاملہ متنازعہ اور پیچیدہ ہوچکا ہے۔ ان تمام تر مسائل کے ہوتے ہوئے مردم شماری کو بلوچستان کی سیاسی جماعتیں قبول نہیں کرینگی خاص کر قوم پرست جماعتیں تو اسے رد کرینگی۔ دوسری جانب بلوچستان کے کمشنر مردم شماری نور احمد پرکانی نے کہا کہ صوبے میں مردم شماری کا عمل 99 فیصد مکمل ہوگیا ہے۔ کمشنر کا یہ دعویٰ سمجھ سے بالاتر ہے جبکہسیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیزکانفرنس منعقد کی جارہی ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مردم شماری و خانہ شماری کو بلوچستان کی عوام کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے۔ لہذا اب یہ متعلقہ ادارے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کے خدشات اور تحفظات کودور کرے۔