سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا اور عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کاحکم بھی دیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ایک شخص کورٹ آف لاء میں آتاہے تو مطلب کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے،آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ جمعہ کو کیس کی سماعت کرے، عمران خان جمعہ کو ہائی کورٹ میں پیش ہوں، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا، عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر سیاستدان کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان کو یقینی بنائے۔اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ہائی کورٹ سے اغوا کیا گیا، ڈنڈے مارے گئے، ایسا تو کسی کرمنل کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، اس کے بعدکچھ علم نہیں کیا ہوا، ابھی تک مجھے نہیں پتہ کیا ہوا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ یہاں میڈیا موجود ہے، پیغام دینا چاہتاہوں، میں تو گرفتار تھا، پُرتشدد مظاہروں کا ذمہ دارکیسے ہوگیا؟ میں نے کبھی انتشارکی بات نہیں کی، ہم ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، سب کو کہتا ہوں سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
عمران خان کی گرفتاری کیخلاف درخواست پرسماعت چند منٹ میں مکمل کرلی گئی۔واضح رہے کہ گزشتہ روزنیب نے چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں اگلے روز پولیس لائنز میں لگنے والی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ان کا 8 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کیاتھا۔دوسری جانب حکومتی اتحاد کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے خلاف شدید ردعمل بھی سامنے آرہا ہے کہ عمران خان کو خاص سہولت فراہم کرنے کی بات کی جارہی ہے کہ جب ہمارے لیڈران کو گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایاجاتا تھا تو ہمیں اس طرح کی خاص سہولیات دستیاب نہیں تھی عمران خان کو ایک لاڈلے کی طرح ٹریٹ کیاجارہا ہے جس سے غلط تاثر جارہا ہے البتہ یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر اعتراضات اور ردعمل سامنے آرہے ہیں۔
اس سے قبل بھی پنجاب میں الیکشن کے متعلق فیصلے پر موجودہ حکومتی اتحاد نے شدید ردعمل دکھایا اور کہا کہ صرف پنجاب میں حکومت کرانے کے حوالے سے کیونکر زور دیاجارہا ہے کے پی کے میں بھی نگراں حکومت ہے اس کے لیے اتنی پھرتی کیوں نہیں دکھائی جارہی اور بتایاجارہا ہے کہ پنجاب میں الیکشن ہونے کے بعد بھی نتائج فریقین کے سامنے متنازعہ ہونگے جبکہ ایک ساتھ انتخاب کا معاملہ بھی لٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے جس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والا ڈائیلاگ ڈیڈلاک کا شکار ہوگیا ہے اورچند اہم حکومتی اتحادی شخصیات نے عمران خان کے ساتھ عدالتی احکامات پر بات چیت کو ردکرتے ہوئے اسے سیاسی معاملات پر مداخلت قرار دیا ہے جس طرح مولانا فضل الرحمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھاکہ ہتھوڑے کے ذریعے کہاجارہا ہے کہ عمران خان سے بات چیت کی جائے جو ہمیں قبول نہیں جبکہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی شدید ردعمل اس حوالے سے دیاہے ۔
اب عمران خان کی رہائی تو عمل میں آگئی ہے مگر گزشتہ چنددنوں کے دوران ملک بھر میں پُرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے اور یہ تمام مظاہرے پی ٹی آئی کی جانب سے کئے گئے ان کے مقدمات بھی درج ہوئے ہیں دوسری جانب سندھ حکومت نے ایک مذمتی قرارداد پی ٹی آئی کے پُرتشدد مظاہروں کے خلاف پیش کی اور اسے اکثریت رائے سے منظور بھی کیا گیا اس دوران عمران خان سمیت پی ٹی آئی قائدین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا اور کہاگیا کہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی قائدین نے عوام کو اُکسایااور اس طرح کے حالات پیدا ہوئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاملہ کہاں جہاں کر رک جائے گا یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا البتہ شدید ردعمل آئی ایس پی آر کی جانب سے پہلے آچکا ہے اب موجودہ حکومتی اتحاد کی جانب سے نئی حکمت عملی اور ردعمل تو ضرور سامنے آئے گا جو مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو واضح کرے گا کہ حالات کس رخ جائینگے۔