|

وقتِ اشاعت :   May 15 – 2023

ملکی حالات میں دن بہ دن تیزی سے تبدیلی آرہی ہے ،حالات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں، حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان خلیج تو پہلے سے ہی پیداہوگئی تھی مگر اب حکومتی اتحاد نے کھل کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے ساتھ چند ججز پر عدم اعتمادکااظہار کرتے ہوئے ان پر جانبداری کا الزام بھی لگایا ہے کہ وہ عمران خان کی سہولت کاری کررہے ہیں، انہیں کیسز میں فوری ریلیف دیا جارہا ہے جبکہ ہمارے قائدین اوررہنماؤں کو عدالتی احاطے سے گرفتار کیاگیا تھا تو اس وقت کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا اور نہ ہی ریلیف دیا تھا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور شہید بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں مشرف کے خلاف ایکشن نہ لینے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ نے جو بل سپریم کورٹ کے متعلق منظور کرائی اسے تسلیم نہیں کیا گیااور نہ ہی صدرمملکت عارف علوی نے بل پر دستخط کئے۔ یہ واضح جنگ سب کے سامنے ہے اب ان حالات میں دوبارہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے درمیان ماحول کو ساز گار بنانے کے لیے بات چیت کی ہدایت کی جارہی ہے اسے کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ حکومتی اتحادپی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے ۔ بہرحال گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج دیکھ لیں وفاقی حکومت بے بس ہے، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، سپریم کورٹ کے باہر جو ہورہا ہے کون آئین پر عملدرآمد کرائے گا؟ فریقین دوبارہ مذاکرات شروع کریں۔

پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظر ثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ میں شامل ہیں۔دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فنڈز اور سیکیورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے اٹھایا تھا، آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے۔ نظر ثانی درخواست پر نوٹسز جاری کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل کیلئے کتنا وقت چاہیے؟ وکیل نے جواب دیا کہ مجھے دلائل کیلئے 3 سے چار گھنٹے چاہئیں۔ اس موقع پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے میں دو احکامات ہیں، ملک کی آدھی آبادی بغیر نمائندگی کے ہے، عدالت اس وقت اپنے احکامات پر عمل کیلئے حکم جاری کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم تمام فریقین کو سنیں گے، یہ ایک نظرثانی درخواست ہے۔ وفاقی حکومت کو نظرثانی میں آنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔

نظر ثانی کی گنجائش آئین میں دی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے۔ باہر دیکھیں انسٹالیشنز کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ چار پانچ دنوں سے جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں گے۔ انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ ہم سب ایک فرض کی امید کرتے ہیں کہ جو ہر ایک نے نبھانا ہے.چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی وکیل کو مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں۔ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور کوئی حل نکل آئے گا۔

بہرحال چیف جسٹس نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ اپنی جگہ مگر ان کے فیصلوں کے بعداحتجاجاًپی ڈی ایم کی جانب سے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیاجارہا ہے اسے کس طرح حل کیاجائے گا؟ جن املاک کو نقصان پہنچایاگیا عسکری ادارے کی تنصیبات کو ہدف بنایا گیا اس پر کیا نوٹس لیاگیا ؟یہ انتہائی سنجیدہ سوالات ہیں ان پر بھی غور ضرور کرنا چاہئے حالات کی بہتری کیلئے منصفانہ نظام ضروری ہے۔