بدلتے ملکی سیاسی نے بہت سے معاملات کو طشت از بام کیا ہے ، ملک میں جن سیاسی مسائل نے جنم لیا ہے ان کے تمام پہلو کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ سیاسی انجینئرنگ سے لے کر عدالتی فیصلوں تک کے معاملات پر بحث ہورہی ہے ، کب کیسے اور کس طرح سے کیا گیا یہ معاملات کبھی عوام کے سامنے نہیں آئے اور ہمیشہ خفیہ رہے، جس طرح سے خفیہ بات چیت اب آڈیو لیکس کی صورت میں سامنے آرہی ہیں اس سے بہت بڑی کھلبلی مچی ہے ،اب اس منظرنامہ کو مزید واضح ہوتا ہوا دیکھاجائے گا کیونکہ آڈیولیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنادیا گیا ہے اور اس کی کارروائی کا آغازبھی ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے کارروائی شروع کردی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا۔ اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان کمیشن میں پیش ہوئے، سربراہ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔اس موقع جوڈیشل کمیشن نے آڈیولیکس کی کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کردیا،کمیشن کا کہنا تھا کہ کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ اسلام آباد بلڈنگ میں ہوگی، جن سے متعلق انکوائری کرنی ہے ان میں 2 بڑی عمر کی خواتین بھی شامل ہیں، اگر درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کے لیے لاہوربھی جاسکتا ہے۔جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو کمیشن کے لیے موبائل فون اور سم فراہم کرنے کی ہدایت کردی، جوڈیشل کمیشن کے لیے فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائیگا۔جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو آڈیوز کی تصدیق کے لیے متعلقہ ایجنسی کا تعین کرنے کی ہدایت بھی کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس کی تصدیق کے لیے پنجاب فارنزک ایجنسی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، اگرکوئی شخص کہے کہ آڈیو میں آواز ان کی نہیں یا ٹیمپرڈ ہے تو اس کی تصدیق پہلے سے کرنا ہوگی، فارنزک ایجنسی کا ایک رکن کمیشن کی کارروائی میں موجود ہو تاکہ اگر کوئی شخص انکار کرے تو فوری تصدیق ہو، انکوائری کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہوگی، تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں۔
کمیشن کو اختیار ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کے سمن جاری کرسکے، کمیشن صرف نوٹس جاری کرے گا، کوشش ہوگی کسی کے سمن جاری نہ ہوں۔سربراہ جوڈیشل کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومتی افسران کے پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی، عوام سے معلومات کی فراہمی کے لیے اشتہار جاری کیا جائے گا، کمیشن کی کارروائی ہفتے کے روز ہوگی۔جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو تمام متعلقہ افراد کو نوٹس جاری کرنے اور ان کی تعمیل فوری کرانے کی ہدایت بھی کی،کمیشن کا کہنا تھا کہ اگرکوئی فریق نوٹس موصول نہ کرے تو اس کے گھر کے باہر چسپاں کردیا جائے، آڈیو لیکس سے متعلق تمام افراد کے نام، رابطہ نمبر اور پتہ بھی فراہم کیا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ نوٹس متعلقہ شخص کو ملنے پر اس کا ثبوت تصویریا دستخط کی صورت میں فراہم کیا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کا سیکرٹری مقرر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جوڈیشل کمیشن اپنا آرڈر اپلوڈ کرے گا۔واضح رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔کمیشن اپنی رپورٹ 30 دن کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کرے گا، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوںگی، سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوںگی، کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی تحقیقات کرے گا،کمیشن چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی بھی تحقیقات کرے گا۔بہرحال یہ انتہائی بہترین فیصلہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے کیا گیا ہے اس سے ملکی سیاست کے ساتھ ہونے والی کھلواڑ، فیصلے، انتشار، بحرانات کے ذمہ داروں کا تعین ہوگاجمہوری ممالک میں سپریم صرف پارلیمان ہے جو قانون سازی کرتا ہے مگربدقسمتی سے ہمارے یہاں پارلیمان کو بے اثر کیا گیا مگر اب اس اقدام سے امید کی کرن پیداہوگئی ہے کہ پارلیمان کو بااثر بنانے کیلئے آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ اداروں سمیت سیاستدان خود بھی اس کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکیں۔