آئی ایم ایف قسط کب جاری ہوگا اور اس وقت آئی ایم ایف کیاسوچ رہی ہے؟ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی جانب سے بتایاگیا کہ پاکستان کی سیاست پر ہماری نظریں ہیں مگر اس پر ہم تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔
مگر ایک بات ضرور سوچنے کی ہے کہ امریکی کانگریس مین جو اسرائیل اور بھارتی حمایت یافتہ ہیں ان کی جانب سے پاکستان میں سیاسی انتقام کے حوالے سے جو کچھ کہاگیا وہ سب کے سامنے ہے ذرائع کے مطابق ان کانگریس ارکان میں اینٹی چائنا اوراینٹی پاکستان ہیں اور خاص کر سی پیک کے خلاف ہیں جبکہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں ۔
9مئی کے واقعے سے قبل پی ٹی آئی کے بعض قائدین اسلام آباد میں یورپی یونین اور امریکی سفیرکے ساتھ ملاقات کے دوران دباؤ کا کہتے رہے جن میں خاص کر اسٹیبلشمنٹ کے متعلق شکایات اور پی ٹی آئی کی حمایت کے حوالے سے گفتگو شامل ہے۔اب آئی ایم ایف کارویہ کیوں تبدیل ہوا تو اس کو اسی تناظر میں ضرور دیکھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف ناک رگڑواکر مزید شرائط کی بات کررہا ہے ۔
جبکہ پاکستان کی طرف سے تمام تر شرائط پورے کئے گئے ہیں۔ بہرحال اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے سب کا یکجاہونا ضروری ہے خاص کر حکومتی جماعت کو سنجیدگی سے معاملے کو لیناہوگا۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ تجاویز آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کردیں جن کا آئی ایم ایف جائزہ لے گا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ ایف بی آر اہداف اور قرضوں کی ادائیگیوں سمیت دیگر تجاویز آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں جب کہ آئی ایم ایف کی اسٹیٹ بینک حکام سے آئندہ مالی سال کیلئے فنانسنگ پر بھی بات چیت جاری ہے۔ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ کے حکام آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ سے قبل معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، پاکستان چاہتا ہے اسٹاف لیول معاہدہ منظوری کیلئے فوری آئی ایم ایف ایگزیکٹوبورڈ کوبھیجاجائے، اسٹاف لیول معاہدہ مکمل ہوتے ہی دسویں اور گیارہویں جائزے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن خط و کتابت کے وقت آئی ایم ایف کارویہ بدل جاتا ہے۔
دوسری جانب حکومتی جماعت ن لیگ کے ذمہ داران بھی ملکی معیشت پر ایک دوسرے پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔وفاقی وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی حکومتی معاشی پالیسیوں پر مسلسل نکتہ چینی پر ان کے لیے پیغام جاری کیا ہے۔خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں لکھا کہ مفتاح اسماعیل جب سے وزارت سے سبکدوش ہوئے ہیں ان کے پاکستان کے معاشی حالات پر تبصرے سننے کو ملتے رہتے ہیں، وہ مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں۔
ان کی قابلیت مسلمہ ہے اور پارٹی ان کے علم سے براہ راست استفادہ کر سکتی ہے لیکن ملک کا معاشی عدم استحکام اس وقت ان کی میڈیا پر نکتہ چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے مزید لکھا کہ مفتاح اسماعیل کی نکتہ چینی حکومت کے لیے مفید بھی ہو سکتی ہے، اگر وہ بھی جماعت کو اعتماد میں لیں اور اچھے وقت اور رفاقت کو یاد رکھیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جماعت نے ان کو دو دفعہ وزارت خزانہ سے نوازا اور ان کا وزارت سے ہٹائے جانے کا گلہ تو ہو سکتا ہے مگر پارٹی کو ٹارگٹ کرنے کا جواز نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ سیاست میں موسم بدلتے رہتے ہیں اور باوقار سیاسی ورکر سردی و گرمی دونوں کو برداشت کرتے ہیں ۔
اور سرخرو ہوتے ہیں، وفاداری جب مشروط ہو تو وہ کاروبار ہوتی ہے۔بہرحال ن لیگی قیادت کو موجودہ حالات میں ایک دوسرے پر وار کرنے کی بجائے ملکی معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان سازشوں پر نظر رکھنی چاہئے جو اس وقت کی جارہی ہیں تاکہ ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام آسکے ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے غلط تاثر جائے گا جو کسی کے مفاد میں نہیں۔