|

وقتِ اشاعت :   June 2 – 2023

موجودہ حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج مالی مسائل، مہنگائی، بیروزگاری، صنعتی سرگرمیوں میں تیزی لانے سمیت معیشت سے جڑی وہ تمام چیزیں ہیں جو ملک کو معاشی لحاظ سے مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور اس کے لیے حکومت اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے خاص کر وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اس حوالے سے زیادہ متحرک ہوگئے ہیں کہ جلد آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بہتر ہوجائیں اور مالیاتی فنڈز مل سکیں۔

ملک میں موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت ہے پی ٹی آئی حکومت سے قبل جتنی بھی حکومتیں آئیں ان کے ادوار میں اس قدر معاشی مسائل پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی عالمی اداروں کے ساتھ ہونے والوں معاہدوں کو رول بیک کیا گیا جس کا نقصان براہ راست ملک کو پہنچا جس کا خمیازہ آج عوام توانائی بحران، گیس بحران، مہنگائی، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔اگر پی ٹی آئی اپنے دور میں انتقامی سیاست نہ کرتی گورننس پر توجہ دیتے ہوئے عالمی اداروں خاص آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرتی تو صورتحال الگ ہوتی۔ بہرحال اب موجودہ حکومت نے ہی معاملات کو سنبھالناہے اور اس بحرانی کیفیت سے ملک کو نکالنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت اقدامات اٹھارہی ہے اور فیصلے بھی کررہی ہے۔

حکومت نے بجٹ کے فوراً بعد اگلے پروگرام کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف سے موجودہ قرض پروگرام نامکمل ہی ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔موجودہ پروگرام 30 جون کو ختم ہو رہا ہے، اس کا 2 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض ملنا باقی ہے، ایک ارب ڈالر قرض کے لیے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں لیکن اسٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو رہا، اگر اسٹاف لیول معاہدہ ہو بھی جائے تو دسویں اور گیارہویں جائزے کے مذاکرات ہونے ہیں۔

30 جون سے پہلے دو جائزوں کے مذاکرات مکمل ہونا نا ممکن ہے، موجودہ قرض پروگرام 30 جون کو ختم ہوگا، حکومت پروگرام میں توسیع نہیں کرائے گی، بجٹ کے فوری بعد اگلے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔موجودہ حکومت مذاکرات مکمل نہ کرسکی تو نگران حکومت نیا قرض پروگرام مکمل کریگی۔معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف سے نیا قرض معاہدہ کرنے کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں، نیا قرض معاہدہ موجودہ پروگرام سے زیادہ سخت ہوگا، آئی ایم ایف سے نیا بیل آؤٹ پروگرام 3 سال سے زائدکا ہوگا، پاکستان کو ستمبر میں نئے قرض پروگرام کی اشد ضرورت ہوگی، اگلے مالی سال میں مجموعی طور پر 24 ارب ڈالر کی ادائیگیا ں کرنی ہیں۔

دسمبر تک پاکستان کو مزید 9 سے 11ارب ڈالرکی غیر ملکی قرض کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔بہرحال پاکستان پر قرضوں کا بوجھ زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی کے لیے یقینا بڑے پیمانے پر رقم درکار ہوگی اس کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کرنا ضروری ہے اس کے لیے دوست ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہونگے تاکہ معیشت کو وینٹی لیٹر سے نکالاجاسکے۔

اب بھی ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے روپے کی قدر کم ہوتی جارہی ہے اس کے لیے بھی اقدامات اٹھانے ہونگے یقینا اس میں کوئی شک نہیں معاشی استحکام کا براہ راست تعلق سیاسی استحکام سے ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اندرونی وبیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایاجائے۔ ملک میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کی بڑی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے اور معیشت کا بھی بیڑا غرق کرنے والی جماعت پی ٹی آئی ہے اب وہ اپنے انجام کی طرف جارہی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اپنی بیشتر توانائی معیشت اور سیاسی استحکام پر صرف کرے گی تاکہ مشکل حالات سے ملک کو نکالاجاسکے۔