|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2023

گزشتہ روز کراچی میئر اورڈپٹی میئر کاانتخاب ہوا جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ میئر اور سلمان عبداللہ ڈپٹی میئر بننے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا سیاسی ایونٹ تھا اور سب کی نظریں ملک کے بڑے شہرکے بڑی کرسی پر لگی ہوئی تھیں مگر اس دوران انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا، دونوں جماعتوں کے کارکنان نے ایک دوسرے پر ڈنڈے برسائے، پتھراؤ کیا، اتنی بڑی سیاسی سرگرمی ہورہی تھی جس کے لیے سیکیورٹی پلان پیشگی تیار نہیں کیا گیاتھا۔

یہ بنیادی سوال ہے کیونکہ امکانات اس بات کے موجود تھے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے نتائج آنے کے ساتھ ہی تصادم کا خطرہ پیدا ہوگا۔ گزشتہ چند ماہ سے بیان بازی اور الزامات کاسلسلہ دونوں فریقین کی جانب سے جاری تھا جو کارکنان کی ذہنوں پر اثرانداز ہوتا رہا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی یہ اچھا خاصاٹرینڈ کررہا تھا کہ میئر کراچی کون بنے گا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کی اہم ترین شاہراہ شاہین کمپلیکس سے لیکر آرٹس کونسل کے قریب چوک تک شاہراہ کے ایک ٹریک کو مکمل طورپر سیل کیا گیا تھا ،رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔

تاہم ہجوم نے تمام سیکیورٹی حصارکو توڑتے ہوئے آرٹس کونسل کے مین گیٹ تک پہنچا آرٹس کونسل کے اندر ہی میئر اور ڈپٹی میئرکاانتخاب ہورہا تھا، بلدیاتی نمائندگان آرٹس کونسل کے اندر موجود تھے جبکہ دونوں جماعتوںکے سیاسی قائدین بھی بڑی تعداد میں آرٹس کونسل کے باہر تھے مگر کسی نے بھی تصادم کو روکنے کے لیے مداخلت کی زحمت تک نہ کی ، سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس طرح کے پُرتشدد رویے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں خاص کر عوام پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے ، سیاسی جماعتیں اپنے ورکرز کی بہترین انداز میں تربیت کرتے ہیں انہیں جمہوریت، سیاسی اخلاقیات کا درس دیتی ہیں مگر افسوس کہ یہاں جمہوری روش کوپس پشت ڈالاگیا ،تشددکاجواب تشدد کے ساتھ بھرپور طریقے سے دونوں طرف سے دیا گیا۔

اب عام لوگ اپنے بنیادی حقوق کے مطالبات کے لیے سڑک پر نکلیں گے تو وہ قانون ہاتھ میں لینگے یہی سیاسی جماعتیں حکومت میں ہونگی تو کیا ردعمل دینگی، یقینا وہ قانونی راستہ اپناتے ہوئے انہیں جیل میں ڈالیں گی کیونکہ کسی کو اس کی اجازت نہیں کہ پُرا من ماحول کو خراب کرے ۔ پُرامن احتجاج، دھرنا دینا سب کا آئینی اور قانونی حق ہے مگر اس میں جب تشدد کا عنصر در آتا ہے تو اسے کوئی بھی ذی شعور شخص اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

کراچی ملک کا انٹرنیشنل میگاسٹی ہے جہاں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے نمائندے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں جورپورٹنگ اس دوران تشدد کی ہوئی ہے تو دنیا میں کیا امیج ہمارا گیا ہے۔ محض ایک دو عہدوں کے لیے تمام تر انسانی حقوق کی پامالی کی گئی جوکہ انتہائی افسوسناک اور ہماری سیاسی جماعتوں کے لیے المیہ اور ایک سبق ہے کہ خدارا اس طرح کے رویوں کو ترک کرتے ہوئے ہار اور جیت کی دوڑ میں تشدد کا راستہ نہ اپنائیں بلکہ جمہوری رویہ رکھتے ہوئے مینڈیٹ کو تسلیم کیاجائے اور آگے کا سوچا جائے ۔ اگر یہی سیاسی رویے جاری رہے تو ہمارے نوجوان نسل کے ذہنوں پر تشدد حاوی رہے گا لہٰذا سیاسی جماعتیں اپنے رویوں پر نظرثانی کرتے ہوئے بہترین انداز میں کارکنان کی تربیت کریں اور سیاسی جماعتیں رول ماڈل کے طور پر اپنے آپ کو سامنے لائیں تاکہ لوگ ان سے مثبت طور پرمتاثر ہوں۔