|

وقتِ اشاعت :   February 18 – 2016

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے لاہور کے پنجاب یونیورسٹی میں مذہبی شدت پسند جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹس ونگ کی جانب سے بلوچ طلباء پر تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس پر تشدد ایک انوکھا واقعہ نہیں بلکہ مربوط حکمت عملی کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلبا پر اسلامی جمعیت طلباء کی جانب سے تشدد اور ایک درجن سے زائد اسٹوڈنٹس کو زخمی کرنے کی کاروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست براہ راست اپنے طاقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں موجود اپنے گماشتو ں کے ذریعے بلوچ طلباء کے لئے تعلیم کے دروازے بند کررہی ہے، جو کہ بلوچ دشمنی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں سے سے خوفزدگی کا کھلا اظہار ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی معروف یونیورسٹیوں میں اس طرح کے واقعات کا مسلسل پیش آنا آنے والے وقتوں میں تعلیمی اداروں سے بلوچ نوجوانوں کو بیدخل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ انہی حکمت عملی کے تحت بی ایس او آزاد کے سینکڑوں ممبران سمیت شہید صباء دشتیاری، زاہد آسکانی ’’سنچار‘‘ سمیت کئی بلوچ دانشور ریاستی ایما پر مذہبی گروہوں کے ہاتھوں شہید و اغواء کیے جا چکے ہیں۔ ترجمان نے کہا غیر معیاری و عدم برداشت پر مبنی تعلیمی نصاب و ماحول کے باوجود بی ایس او آزاد نے ہمیشہ نوجوانوں کی اسکولوں، کالجوں و یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔لیکن ریاست شروع سے ہی بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی پالیسیوں پر عمل پھیرا ہے۔ علاوہ ازیں بی ایس او آزاد نے بلوچستان بھر میں تسلسل کے ساتھ جاری آپریشنوں و اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فورسز کاروائیوں کی آڑ میں لاپتہ بلوچ فرزندان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک کر انہیں مذاحمت کار قرار دینے کا جھوٹا دعویٰ کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں سبی کے علاقوں میں ہونے والی آپریشن کے دوران فورسز نے اپنی تحویل میں پہلے سے موجود دس بلوچ فرزندان کو شہید کر کے ان کی لاشیں پھینک دیں جبکہ اپنی کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے انہیں مقابلے میں مارنے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا۔ ان میں سے دو لاشوں کی شناخت چمو مری اور پاستہ مری کے نام سے ہوئی جنہیں ایک مہینہ قبل فورسز نے بولان سے دوران آپریشن اغواء کیا تھا۔اس کے علاوہ گذشتہ روز فورسز نے قلات کے مختلف علاقوں میں آپریشن کرکے عام آبادیوں کو نشانہ بنا کر اپنی جرائم کو چھپانے کیلئے میڈیا میں حسبِ روایت مذاحمت کاروں کے ٹھکانوں کا نام دیا گیا تاکہ نہتے بلوچوں پر کاروائیوں کو مذاحمت کار وں کے نام پر قانونی جواز فراہم کیا جاسکے ۔ترجمان نے کہا کہ آواران کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری مسلسل آپریشن کی وجہ سے کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹائے جا چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ خواتین وبچوں سمیت کھلے آسمان تلے شدید سردی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔