کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے احتجاجی ریلی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کراچی میں تنظیم کے کارکنوں ، بلوچ قوم اور انسان دوست تنظیموں سے 21 فروری کی احتجاجی ریلی میں بھر پور شرکت کی اپیل کی۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت اور بلوچستان میں جاری بدترین آپریشن کے خلاف بی ایس او آزاد کی آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب احتجاجی ریلی حکمرانوں کے مظالم اور دنیا کی خاموشی پر احتجاج کو کامیاب بنانا ہر ذی شعور شخص کا فرض بنتا ہے۔ڈاکٹر منان بلوچ جیسے مشہورسیاسی شخصیت کو قتل کرکے انہیں دہشت گرد قرار دینا حکومت کی بوکھلاہٹ ہے۔بلوچستان میں بلوچ قوم اپنی چھینی گئی آزادی کے خلاف جد وجہد کر رہاہے۔ ڈاکٹر منان بلوچ بی این ایم کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے تمام بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچ قوم کو اپنے حق آزادی کی تبلیغ میں مصروف تھے۔انہیں قتل کرکے سیاسی کارکنوں کو مرعوب کرنا چاہتا ہے، مگر ڈاکٹر منان بلوچ اور دوسرے شہدا کے فلسفہ آزادی و قربانی کو بلوچ قوم شعوری طور ایک منظم انداز میں جد و جہد کرکے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔ فورسزکی جانب سے بلوچ سیاسی رہنماؤں و کارکنوں، طلبا، ٹیچرزاور دانشوروں سمیت تمام طبقہ ہائے فکر کا قتل اور اغوا ایک عرصے سے جاری ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے بلوچ طلباء پر حملے اور زخمی کرنے کی مذمت کرتے ہوئے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو مذہبی انتہا پسندوں نے دھمکیاں دیکر بند کی ہیں یا پھر فورسز نے تعلیمی اداروں پر قبضہ کرکے کیمپ و چوکیوں میں تبدیل کرکے بلوچوں پر علم حاصل کرنے کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔انہی قوتوں نے صبا دشتیاری، استاد علی جان، زاہد آسکانی اور پروفیسر رزاق جیسے کئی استادوں کا قتل کی ہے۔ بلوچ طلبا پر اسلامی شدت پسندوں کا حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ گزشتہ ہفتے مند گیاب سے ایک بلوچ ٹیچر منیر رہشون کو اغوا کرکے لاپتہ کیا۔ ان کی رہائی کیلئے ان کا خاندان اور ٹیچرز برادری سراپا احتجاج ہے مگر فورسز دہشت گردانہ پالیسی کے تحت تمام قوانین کو روند کر ہزاروں بلوچ فرزندوں کی طرح انہیں بھی خفیہ زندانوں میں بند رکھے ہوئے ہیں۔انہیں اسکول سے ان کے طلبا کے سامنے اغوا کیا گیا ہے۔ اسی طرح آپریشن بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ہے۔آواران ، کولواہ اور بولان میں سینکڑوں گھروں کو لوٹنے کے بعد جلا کر کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹاکر بے شمار لوگوں کو بے گھر کرکے آئی ڈی پیز بنایا گیا ہے۔ بلوچستان میں آئی ڈی پیز کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے۔