گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں انسانی سمگلر متحرک ہیں، معصوم شہریوں کو مستقبل کے بہترین خواب دکھاتے ہوئے انہیں مغربی ممالک بھیجنے کے لیے لاکھوں روپے لیتے ہیں۔ ملک بھرمیں انسانی اسمگلرز کے ایجنٹوں کا نیٹ ورک کام کرتا ہے جو مختلف مقامات پرموجود ہوتے ہیں، پاکستان کے اندراور بیرون ملک خاص کر ترکی میں ایجنٹس کا بڑا نیٹ ورک موجود ہے جو مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع تفتان سے آئے روز تارکین وطن کو ایرانی حکام کی جانب سے انتظامیہ کے حوالے کیاجاتا ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں اور پھر انہیں کنٹینرز یا دیگر گاڑیوں کے ذریعے تفتان پہنچایاجاتا ہے۔
پھر کچے راستوں کے ذریعے ایجنٹس ان افراد کے لیے گاڑیاں بک کرکے انہیں ایران کے علاقے چابہار پہنچاتے ہیں پھر وہاں موجود ایجنٹ ایران سے ترکی پہنچانے کا بندوبست کرتا ہے۔اس دوران انتہائی تکلیف دہ عمل سے تارکین وطن کو گزرنا پڑتا ہے ایک چھوٹی سی گاڑی کے اندر درجنوں افراد کو رکھا جاتا ہے جبکہ کنٹینرز کے اندر موجود سامان کے نیچے بھی لوگوں کو رکھ کر ایران لے جایاجاتا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ترکی سے پھر انہیں یورپی ممالک تک پہنچانے کے لیے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو بٹھایاجاتا ہے جنہیں برائے نام لائف سیفٹی جیکٹ دیاجاتا ہے جو کسی کام کا نہیں ہوتا۔
ایسے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں ترکی کے ساحل پر کشتی بڑے پتھروں سے ٹکرا کر الٹ جاتی ہے جس سے کشتی میں موجود افراد گہرے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ جب شام جنگی حالات میں تھا تو اس دوران شام، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے یورپ کا رخ کیا اور یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کو آنے کی اجازت دی گئی، سب سے پہلے جرمن حکومت نے یہ پہل کی تاکہ جنگ زدہ علاقوں کے متاثرین کو پناہ دی جاسکے مگر انسانی اسمگلرزنے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کو وسیع کیااور مختلف ممالک کے لوگوں سے بھاری رقم لے کر انہیں ترکی پھر یورپ کی طرف بھیجنے کی کوشش کی،اس دوران سانحات بھی رونما ہوئے متعددلوگوں کی جانیں بھی ضائع ہوگئیں۔پھر جب یورپ میں خود کش حملے دوبارہ شروع ہوئے تو یورپی یونین نے پابندی عائد کردی مگر انسانی اسمگلرزکا یہ گورکھ دھندہ بندنہیں ہوا،یہ مسلسل چل رہا ہے۔ بہرحال گزشتہ دنوں یونان کے ساحل کے قریب بہت بڑا سانحہ رونما ہوا تارکین وطن سے بھری کشتی ڈوب گئی جس سے متعدد افراد جان سے گئے اور اب تک بہت سارے لوگ لاپتہ بھی ہیں جن میں پاکستان کے صوبے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد شامل ہے، معلومات کے مطابق ڈوبنے والی کشتی کے بچ جانے والے مسافروں نے کوسٹ گارڈز سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستانی مسافروں کو کشتی کے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا جبکہ دوسری قومیت والوں کو کشتی کے اوپری حصے میں جانے کی اجازت تھی۔
مسافروں نے کوسٹ گارڈز کو بتایا کہ کشتی کے اوپری حصے کے مسافروں کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، کشتی کے نچلے حصے سے پاکستانی اوپر آنا چاہتے تو ان سے بدسلوکی کی جاتی، خواتین اور بچوں کو بظاہر مردوں کی موجودگی کے سبب بند جگہ پر رکھا گیا تھا۔بچ جانے والے مسافروں نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈوبنے سے پہلے ہی پانی کی عدم دستیابی پر کشتی میں 6 اموات ہو چکی تھیں، کشتی ڈوبنے سے تین روز پہلے کشتی کا انجن بھی فیل ہو گیا تھا۔برطانوی میڈیا کے مطابق کشتی میں 100 سے زیادہ بچے موجود ہونے کا بتایا گیا ہے لیکن بچ جانے والے مسافروں میں کسی خاتون یا بچے کے شامل ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔پاکستانی میڈیا کے مطابق کشتی کے ڈوبنے والوں میں تقریباً 300 پاکستانی ہیں جبکہ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے اندازے کے مطابق کشتی پر 400 پاکستانی تھے جن میں سے صرف 12 زندہ بچے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یونان کے ساحلی علاقے میں 14 جون بروز بدھ کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا تھا، کشتی ڈوبنے سے 78 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 104 کو بچا لیا گیا تھا، کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 تارکین وطن سوار تھے۔ادھر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے یونان میں ہونے والے کشتی حادثے کی وجوہات کے تعین کے لیے تحقیقات کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور اس حوالے سے ایک 4 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے۔وزیراعظم کی ہدایت پر ایف آئی اے نے ڈی آئی جی عالم شنواری کو واقعے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کی معلومات اور سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کر دیا ہے۔بہرحال تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں، مگر انسانی اسمگلرز بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں جو یہ کام عرصہ دراز سے کررہے ہیں جیسے کہ مندرجہ بالا تفصیلات میں بتایاگیا کہ ان کانیٹ ورک پاکستان سے لے کر ترکی اور پھر یورپ تک پھیلا ہوا ہے معصوم نوجوانوں کو بہترمستقبل کاخواب دکھاکر انہیں اپنے جھانسے میں پھنسا تے ہیں اور ان سے لاکھوں روپے لے کر انہیں غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے بیرون ممالک لے جانے کا بندوبست کرتے ہیں۔
اس نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے ملکی ایجنسیوں کی مدد لینا ضروری ہے تاکہ انسان کش ایجنٹوں کو منطقی انجام تک پہنچایاجاسکے اور معصوم نوجوان کم عمری میں جان سے ہاتھ دھونہ بیٹھیں۔ دوسرا مسئلہ ملک میں معیشت کو بہتر کرنا بھی ہے ۔
اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ملک کے مستقبل کے معمار اپنے ملک میں ہی بہترین روزگار کما سکیں اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپناکردار ادا کرناہوگا کیونکہ یہ نوجوان تنگ دستی، معاشی بدحالی کے باعث انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبورہوجاتے ہیں لہٰذا ہمیں معیشت کو بہتر کرنے کے لیے بھی اقدامات اٹھانے ہونگے تاکہ ملک میں روزگار کے بہت سارے ذرائع پیدا ہوں اور نوجوان نسل بیروزگاری، معاشی بدحالی کے باعث ایجنٹس کے ہتھے نہ چڑھیں۔