|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2016

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے ڈاکٹر منا ن بلوچ و ساتھیو ں کی شہادت اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری فوجی آپریشنوں کے خلاف کراچی میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ریلی کے شرکا آرٹس کونسل کراچی سے نکل کر مختلف شاہراہوں پر گشت کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سامنے پہنچے۔ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر ڈاکٹر منان بلوچ کی قتل کے خلاف نعرے درج تھے، پریس کلب کے سامنے شرکاء نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں و اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان میں فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں عام لوگوں کی ہلاکت اور سیاسی کارکنان کی فورسز کے ہاتھوں اغواء و ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آواز اُٹھائیں۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ فورسز تسلسل کے ساتھ بلوچ سیاسی لیڈران کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ ڈاکٹر منان بلوچ و ساتھیوں کی شہادت سے ریاست یہ واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ بلوچ آزادی کی جدوجہد کے لئے پرامن جدوجہد کے تمام راستے بند کیے جا چکے ہیں، لیکن فطری حق آزادی کے حصول کے لئے بلوچ عوام اپنی سیاسی جدوجہد کے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ، بلوچ آزادی کی تحریک کے ایک قدآور سیاسی شخصیت تھے ، ڈاکٹر منان بلوچ کی سیاسی کردار سے نہ صرف بلوچ قوم بلکہ میڈیا ادارے و دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ڈاکٹر منان بلوچ کو ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ اس کے باوجود فورسز نے ڈاکٹر منان کو مزاحمت کار قرار دے کر اُن کی شہادت کو عظیم کامیابی قرار دی، جو کہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں و لیڈران کے ساتھ فورسز کا رویہ کیا ہے۔بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کے مدمقابل ایک قوم ہے، اسی لئے ریاست بلوچ قوم کو منتشر کرکے شکست دینے کے لئے تجربہ کار سیاسی لیڈران کو چن چن کر نشانہ بنا رہی ہے۔ زاہد بلوچ، زاکر مجید بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، رمضان بلوچ، غفور بلوچ سمیت سینکڑوں سیاسی لیڈران کئی سالوں سے فورسز کی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ جبکہ چیئرمین غلام محمد بلوچ، شہید رضا جہانگیر و دیگر سیاسی لیڈران فورسز کے ہاتھوں اغواء کے بعد شہید کیے جا چکے ہیں یا ان کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے اب تک تین ہزار سے زائد ایسے کارکنوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔اپنا خطا ب جاری کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے رہنما نے کہا کہ بلوچستان عملاََ ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے، جہاں پر ریاستی طاقت سے کوئی شخص بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔گزشتہ کئی سالوں سے جاری کاروائیوں میں چائنا پاکستان اکنامک کوریدور کے معاہدات پر دستخط کے بعد انتہائی شدت لایا گیا ہے، روزانہ کی بنیاد پر آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔چائنا پاکستان کوریڈور کے راستے آنے والے کئی علاقوں کی ہزاروں خاندانوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے، جو کچھ بچے ہیں ان کے لئے ان کے علاقوں میں زندگی تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں نکل مکانی پر مجبور کیا جا سکے۔گزشتہ کئی دنوں سے آواران کے مختلف علاقوں میں جاری فوجی کاروائیوں سے درجنوں دیہات لوٹے و جلائے جا چکے ہیں، جبکہ کئی نہتے لوگ گھروں سے اُٹھا کر لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ کوئٹہ، سبی، آواران، مکران سمیت بلوچستان بھر سے روزانہ اوسطاََ پچاس سے زائد لوگ گرفتار و لاپتہ کیے جا رہے ہیں۔ جو کہ پہلے سے لاپتہ ہزاروں لوگوں کی تعداد میں روزانہ تیزی سے اضافہ کررہی ہے۔اس تمام صورت حال کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں و میڈیا اداروں کے لئے بلوچستان بدستور ایک غیر اہم مسئلہ ہے، ان اداروں کی خاموشی بلوچستان میں قتل عام کو جاری رکھنے کا سبب بن کر کسی بڑی انسانی المیے کو جنم دینے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی، فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال اور بلوچ مسئلے کے پر امن و فوری حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔ تاکہ لاکھوں بلوچوں کی زندگیوں کو مشکلات سے نکالا جا سکے۔جلسے سے این ایس ایف کے مرکزی آرگنائزر خرم علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔ ڈاکٹر منان جیسے سیاسی لیڈران کو دن دیہاڑے گھر میں گھس کر قتل کرنانہ صرف خطرناک ہے بلکہ بنیادی سیاسی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سیاسی و پر امن سرگرمیوں پر پابندی بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ غلام محمد بلوچ کی شہادت، زاہد بلوچ کا اغواء بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحاریک کو قتل عام سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے ، کیوں کہ لوگوں کو قتل کرکے ان کے خیالات کا قتل نہیں کیا جاسکتا۔ریلی کے شرکاء سے بی آر سی کے رہنماء نے وہاب بلوچ نے بھی خطاب کیا۔