نئے صوبے بنانے کا بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش کر دیا گیا، اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن اراکین نے شرکت کی، اجلاس میں نئے صوبے بنانے پر مشاورت کی گئی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رانا محمود الحسن نے سرائیکی اور سینیٹر محمد صابر شاہ نے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق بل کمیٹی میں پیش کیا جس کے بعد نئے صوبوں کے قیام پر مزید مشاورت ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ صوبوں سے تجاویز لی جائیں گی۔اجلاس میں شریک پی پی کے سینیٹر اور معروف قانون دان فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بھارت میں انتظامی اکائیاں بنتی ہیں تو آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن پاکستان میں صوبوں کے معاملے پر آئینی ترمیم ضروری ہے، یہ کام جذبات کا نہیں ہے کیونکہ قانون جذبات نہیں دیکھتا، قانون اندھا ہوتا ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ فی الحال اس کو مؤخر کردیں، نئی اسمبلی آنے دیں پھر ان کو یہ معاملہ کرنے دیں۔پی ٹی آئی سینیٹر اور ممتاز قانون دان علی ظفرنے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، صوبوں سے متعلق معاملے پر تمام جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی بھی رائے آجائے، کمیٹی کی توسیع کے لیے چیئرمین کو لکھیں گے۔اجلاس میں شریک وفاقی سیکریٹری قانون و انصاف نے کہا کہ نجی بلز کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی، جنوبی پنجاب والا بل بھی لے آئے تھے، اس وقت صوبوں اور گلگت بلتستان کے حوالے سے 20 سے زائد ترامیم پڑی ہیں۔بل میں آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے اور پنجاب میں دو نئے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کی تجویز دی گئی ہے۔
بل میں واضح کیا گیا ہے کہ صوبہ بہاولپور میں اس وقت موجود بہاولپور ڈویژن کے علاقے اور جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن کے علاقے شامل ہوں گے۔آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے تاکہ نئے صوبوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی کا تناسب مقرر کیا جائے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبہ بہاولپور میں جنرل نشستیں 15 اور خواتین کی 3، جنوبی پنجاب میں 31 براہ راست اور 7 خواتین نشستوں کے ساتھ مجموعی طور پر 38 نشستیں ہوں گی۔پنجاب میں دو نئے صوبوں کی تجویز کے بعد نشستوں کی تعداد 117 رہ جائے گی جس میں 95 براہ راست اور 22 خواتین نشستوں کی تجویز ہے۔بل میں پیش کی گئیں تجاویز کے تحت ملک میں بہاولپور، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ، جنوبی پنجاب اور وفاقی دارالحکومت پر مشتمل وفاقی اکائیاں ہوں گی۔واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ہفتے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی نے ملک میں کراچی سمیت 9 نئے صوبوں کی تشکیل کی تجویز دی تھی۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کراچی، خیبرپختونخوا میں ضم قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) اور ہزارہ کے ساتھ ساتھ پنجاب اور بلوچستان کو 3/ 3 صوبوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی تھی۔
اگست 2019 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے جنوبی پنجاب، بہاولپور اور ہزارہ صوبوں کے قیام کے لیے پیش کیے گئے قانون میں مزید بہتری کے لیے اسپیکر اسمبلی کو پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تجویز بھیج دی تھی۔کمیٹی میں مرتضیٰ جاوید عباسی اور علی خان جدون کی جانب سے پیش کیے گئے ترمیمی بل 2019 میں آئین کے آرٹیکل ایک، 51، 59، 106، 175 اے اور 218 میں ترمیم کا جائزہ لیا گیا تھا۔ملک میں پہلے سے سیاسی اور معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں، پہلے ان معاملات سے نمٹنے کے لیے پلان مرتب کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے آج ہمارا ملک معاشی حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے جس کی اصل وجہ سیاسی عدم استحکام رہا ہے اور مستقل معاشی پالیسی نہ ہونا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔
ہمارے پڑوسی ممالک نے معاشی حوالے سے بہت زیادہ ترقی کی ہے جبکہ ہم آج بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں جب تک عالمی مالیاتی ادارہ، دوست ممالک رقم نہیں دیتے ہماری معیشت نہیں چلتی اور اس کے نتائج مہنگائی، بے روزگاری کے ذریعے سامنے آتے ہیں لہٰذا سب سے پہلے سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کیاجائے بعد میں انتظامی امور پر صوبوں کی تشکیل پر بحث ہونی چاہئے چونکہ یہ انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ پاکستان کی تشکیل قومی اکائیوں کی بنیاد پر پائی ہے آج بھی قومی اکائیوں کے آپس میں معاملات بہت زیادہ خراب ہیں وسائل کی تقسیم سمیت دیگر معاملات بھی ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے تاکہ ملک میں موجود اقوام کے درمیان تصادم پیدا نہ ہو، جلد بازی سے مسائل حل نہیں ہوتے اس کے لیے تمام اکائیوں کو اعتماد میں لازمی لینا ہے۔