|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2023

بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی ابتر صورتحال سب کے سامنے ہے ۔ دارالحکومت کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان میں سرکاری تعلیمی اداروں خاص کر اسکولوں میں کوئی سہولت موجود نہیں یہاں تک کہ اساتذہ تک دستیاب نہیں ہیں۔ اگراساتذہ بھرتی بھی ہوئے ہیں تو وہ ڈیوٹی نہیں دیتے جس کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوںسے باہر ہیں۔

جو بڑا المیہ ہے لاکھوں بچوں کا مستقبل داؤپر لگاہوا ہے مستقبل کے معمار جو ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں ان پر سرمایہ کاری اورتوجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے معاشرتی، سماجی تبدیلی میں نوجوانوں کاکردار نہیں رہتا بلکہ اس کا اثر منفی طور پر سماجی برائیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے جبکہ بچیوں کی تعلیم نہ ہونے کے باعث وہ اپنا بہترین مقام حاصل نہیں کرپاتیں جہاں خواتین کا معاشرے میں انتہائی کلیدی کردار ہوتا ہے ہر شعبے میں وہ بہتر انداز میں کام کرسکتی ہیں۔ بہرحال یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مستقبل کے معماروںپر توجہ دیتے ہوئے پالیسیاں بنائے۔

بہرحال بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا عمل روکنے کا حکم دے دیا۔بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل بینچ نے ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران فیصلہ سنایا اور عدالت نے سیکرٹری محکمہ تعلیم کو حکم دیا کہ وہ محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے جاری عمل کے نتائج کا اعلان نہ کرے۔درخواست گزار نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ محکمہ تعلیم کے تدریسی وغیر تدریسی کیڈر میں 8551 خالی اسامیوں پر سرکاری جواب دہندگان بھرتی کے عمل کو حتمی شکل دینے جارہے ہیں لیکن موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور اس مختصر مدت میں ان عہدوں کو پُر کرنا قطعی نا ممکن ہے۔دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ایک طرف بلوچستان شدید مالی بحران کا شکار ہے دوسری طرف بھرتیاں ہورہی ہیں،محکمہ تعلیم کو بھی گورننس کے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے،صوبے کے سالانہ بجٹ کا 75فیصد سے زائد صرف تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہور ہا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ صوبائی بجٹ کا بڑا حصہ حکومت بلوچستان کے محکموں میں مکمل طور پر امتیازی بھرتیوں اور تقر ریوں کی شکل میں غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہو رہا ہے، یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ صوبے میں 3500 سے زائد اسکول غیر فعال ہیں، محکمہ تعلیم نان فنکشنل اسکولوں کو فعال کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے جب کہ ان اسکولوں میں اساتذہ بھی تعینات تھے اور تنخواہیں بھی وصول کر رہے تھے، مختلف ٹیچر یونینز اور ایسو سی ایشنز کے دباؤ پر ان اساتذہ کو ٹائم اسکیل پروموشن دے دی گئی۔عدالت نے محکمہ سے ٹیچرز کی کل تعداد، طلبا کی کل تعداد، اسکول چھوڑ جانے والے طلبا کی کل تعداد،نان ٹیچنگ اسٹاف کی کل تعداد، نان فنکشنل اسکولوں کی کل تعداد اور اسکولوں کے مقامات کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے سماعت 17اگست تک ملتوی کردی۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کیاجاتا ہے۔

مگر اس کے نتائج اس طرح برآمد نہیں ہورہے جو ہونے چاہئیں یہ پچھلی اور موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خطیر رقم بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے رکھنے کے باوجود بھی وہ اہداف کیونکر حاصل نہیںکر پارہے اور تعلیمی معیار میں بہتری سمیت سہولیات اور ٹیچرز کی دستیابی ممکن نہیں ہورہی ، اس حوالے سے پوچھ گچھ محکمہ تعلیم کے ذمہ داران سے بھی ہونی چاہئے تاکہ ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلانہ جاسکے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت اس اہم مسئلے پر توجہ دے گی تاکہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے میں بہتری آسکے۔