|

وقتِ اشاعت :   July 27 – 2023

ملک میں معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ کرپشن اور بدعنوانی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے قومی محکمے تباہ ہوکر رہ گئے ہیں، بڑے آفیسران سے لے کر نچلی سطح کے ملازمین تک ریکارڈ کرپشن کرتے آرہے ہیں مگر افسوس کہ اب تک بڑے اسکینڈلز میں ملوث اہم شخصیات کو قانون کی گرفت میں نہیں لایاگیا اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی سرپرستی بھی ہے ۔

جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کیونکہ آفیسران کرپشن اس وقت کرتے ہیں جب ان کے پیچھے کوئی سیاسی قوت موجود ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ مثالیں دی جاتی ہیں کہ ملک میں نظام کو مفلوج کرنے میں سیاستدانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ بدقسمتی سے کاروباری شخصیات پیسہ لگاکر سیاست میں آتی ہیں اور پھرسینیٹر بن جاتے ہیں یا پھر وزیر بننے کے بعد جو رقم اس نے اپنی سیاست میں لگائی ہوئی ہے اس کی وصولی تو کرے گا جبکہ سیاسی جماعتیں مجبوراََ ان کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف نہ پارٹی سطح پر کوئی کارروائی کرتی ہیں اور نہ ہی وزارت سے انہیں الگ کرتی ہیں ۔

کیونکہ پورانظام کرپٹ ہوکر رہ گیا ہے، انہیں ڈر یہی ہوتا ہے کہ اگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو ہماری مخالف جماعت میں چلاجائے گا اوریہ ہوتا بھی رہا ہے ایک جماعت کو چھوڑ دوسری جماعت میں شمولیت کا ڈھنڈوراپیٹاجاتا ہے اور یہ بتایاجاتا ہے کہ ہماری جماعت مزید مضبوط ہورہی ہے مگر اس مضبوطی کے پیچھے نظام کمزور ہورہا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں کشکول توڑدینگے مگر کشکول اٹھانے کی وجوہات بھی تو سامنے آنی چاہئیں کہ کیونکر ملک معاشی حوالے سے سنبھل نہیں پارہا۔ ان اسباب پر بات کیوں کھل کر نہیں کی جاتی ایک دوسرے پر معاشی بحران کا ملبہ ڈالنے کی بجائے کرپٹ عناصر کو اپنی صفوں سے پہلے باہر نکالنا ضروری ہے۔ بہرحال اب ایک بار پھر 15 وفاقی اداروں میں 2 کھرب کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مالی سال 2022-23 کی رپورٹ میں جن اداروں کی نشاندہی کی گئی ان میں این ایچ اے، سی ڈی اے، ایم سی آئی، سی اے اے، پاک پی ڈبلیو ڈی، اسٹیٹ آفس،پی ایچ اے ایف، این سی ایل، ایف جی ای ایچ اے، ایچ ای سی،اسپیشل پروجیکٹ سیل، ایس آئی ڈی سی ایل، جی پی اے، ایف بی آر اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق 28 منصوبوں میں ٹھیکیداروں کو اصل رقم سے 23 ارب 77 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں، 17 کیسز میں 11 ارب 48 کروڑ روپے کا ریونیو وصول نہیں کیا گیا۔35 کیسز میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک کھرب 52 ارب کے کام دیئے گئے۔ 3 کیسز میں 7 ارب 13 کروڑروپے کی ادائیگیاں ریکارڈ کئے بغیر کی گئیں۔

 

11 کیسز میں مجاز فورم کی منظوری کے بغیر 13 ارب کی ادائیگیوں میں پی سی ون دفعات سے انحراف کیا گیا۔آڈیٹر جنرل نے زائد ادائیگیوں کی وصولی اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی سفارش کردی۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں تمام رسیدیں حاصل کرکے خزانے یا متعلقہ حکومتی کھاتوں میں جمع کرانے اور پبلک پروکیورمنٹ رولز کی مکمل پابندی کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ 15وفاقی محکموں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے والوں کے نام بھی سامنے آنے چاہئیں اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہئے معاملے کو سرد خانے کی نذر نہیں کرنا چاہئے اگر ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم سب کا ہے تو ان عناصر کو سیاسی شیلٹر بھی نہیں دینا چاہئے جب تک کرپشن کے خلاف انقلابی اقدامات نہیں اٹھائے جائینگے تو کبھی بھی ہمارے ہاں معاشی ترقی اور انقلاب نہیں آئے گا،اصل تبدیلی ہی کرپشن کے خاتمے سے ممکن ہے جس سے ملک معاشی حوالے سے مضبوط تو ہوگا محکموں کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔