قومی اسمبلی نے 24 جامعات کے قیام کا بِل پاس کیا ہے ان میں ایک پاک چائنا گوادر یونیورسٹی بھی شامل ہے اور اس یونیورسٹی کا نام اس وقت سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی گوادر میں ہی قائم کی جائے یہ وہاں کے طلبا کا حق ہے۔
سینئرصحافی حامد میر نے سوشل میڈیا پر قومی اسمبلی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ‘کیا کسی نے یہ پوچھا کہ گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی کیوں بنائی جا رہی ہے؟’ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی لاہور کے قیام پر بلوچستان سمیت ملک بھر کے صارفین نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ‘بلوچوں کو اور کیا چاہیے؟
پاک چائنا گوادر یونیورسٹی لاہور میں بنے گی۔ حکومت چاہتی تو اس یونیورسٹی کا نام کچھ اور بھی رکھ سکتی تھی’اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر انور اقبال نے لکھا کہ سی پیک کے تحت قائم ہونے والی یونیورسٹی کو لاہور منتقل کیے جانا قابلِ مذمت ہے۔ اس یونیورسٹی کو گوادر میں ہی قائم ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کی قوم پرست جماعت بی این پی اس وقت کابینہ کا حصہ اور وفاقی حکومت کی بڑی اتحادی جماعت ہے بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اسی طرح جمعیت علمائے اسلام بھی وفاق میں اہم شریک دار ہے اور بلوچستان ایک بڑا ووٹ بینک رکھنے والی مذہبی جماعت ہے ان کی جانب سے بھی بل کی مخالفت نہیں کی گئی، بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی پی ڈی ایم حکومت کا حصہ ہیں جن کی خاموشی یقینا سوالیہ نشان ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ہر وقت قومی اسمبلی بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کیا مگر اس اہم نوعیت کے بل پر خاموشی پر سوشل میڈیا پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ بہرحال سی پیک بلوچستان کا جھومر ہے
یہ بیانیہ خود مرکزی جماعتوں کا ہے مگر اس بل سے ماضی کے رویہ پھر واضح ہورہے ہیں کہ وفاق کو بلوچستان کی ترقی خوشحالی، تعلیم صحت سے غرض نہیں صرف یہاں کے وسائل سے مطلب ہے البتہ اس بل سے پی ڈی ایم کی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے