سی پیک بلوچستان کے ماتھے کا جھومر اور ترقی کی کنجی ہے۔ سی پیک سے بلوچستان خطے میں سب سے زیادہ خوشحال اورترقی پذیر علاقے میں شمار ہوگا۔ صنعتیں،شاہراہیں، بجلی گھر تجارت سمیت روزگار کے بڑے پیمانے پر مواقع پیدا ہونگے۔تعلیم،صحت تمام تر سہولیات بلوچستان کے عوام کو فراہم کیے جائینگے اس کے ساتھ بہت سارے میگامنصوبوں کی نوید بھی سنائی جاتی ہے مگر حالت یہ ہے کہ ایک بل نے وفاقی حکومت سمیت اسلام آباد کی اصل نیت کوآشکار کردیا ۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے 24 جامعات کے قیام کا بِل پاس کیا ہے ان میں ایک پاک چائنا گوادر یونیورسٹی بھی شامل ہے اور اس یونیورسٹی کا نام اس وقت سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی گوادر میں ہی قائم کی جائے یہ وہاں کے طلبا کا حق ہے۔ سینئرصحافی حامد میر نے سوشل میڈیا پر قومی اسمبلی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ‘کیا کسی نے یہ پوچھا کہ گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی کیوں بنائی جا رہی ہے؟’پاک چائنا گوادر یونیورسٹی لاہور کے قیام پر بلوچستان سمیت ملک بھر کے ناظرین نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے‘بلوچوں کو اور کیا چاہیے؟ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی لاہور میں بنے گی، حکومت چاہتی تو اس یونیورسٹی کا نام کچھ اور بھی رکھ سکتی تھی۔ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر انور اقبال نے لکھا کہ سی پیک کے تحت قائم ہونے والی یونیورسٹی کو لاہور منتقل کیے جانا قابلِ مذمت ہے۔ اس یونیورسٹی کو گوادر میں ہی قائم ہونا چاہیے۔
اسی طرح جمعیت علمائے اسلام بھی وفاق میں اہم شراکت دار ہے اور بلوچستان میں ایک بڑا ووٹ بینک رکھنے والی مذہبی جماعت ہے ان کی جانب سے بھی بل کی مخالفت نہیں کی گئی۔ بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی پی ڈی ایم حکومت کا حصہ ہیں جن کی خاموشی یقینا سوالیہ نشان ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ہر وقت قومی اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کیا ہے مگر اس اہم نوعیت کے بل پر خاموشی پر سوشل میڈیا پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ بہرحال سی پیک بلوچستان کا جھومر ہے۔
یہ بیانیہ خود مرکزی جماعتوں کا ہے مگر اس بل سے پاکستان کے اصل حکمرانوں کے رویے پھر واضح ہورہے ہیں کہ وفاق کو بلوچستان کی ترقی،خوشحالی، تعلیم،صحت سے کوئی غرض نہیں بلکہ صرف یہاں کے وسائل سے مطلب ہے۔ بہرحال اس بل سے پی ڈی ایم کی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاازالہ تو نہیں کیاجارہا مگر زخموں پر نمک پاشی کا رویہ بھی نہیں بدلاجارہا۔ سی پیک بلوچستان میں اور اہم تعلیمی ادارے کا قیام پنجاب میں تو کس طرح سے بلوچستان کے عوام کے اندر موجود غم وغصہ کو ختم کیاجائے گا۔کیا سیاسی مفادات قومی مفادات پرزیادہ فوقیت اور ترجیح رکھتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی ناانصافیوں پر اس طرح سے خاموشی سے سمجھوتہ کیاجائے گااور پھر کس طرح سے آئندہ عام انتخابات میں لوگوں کے درمیان ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے گا۔ بلوچستان کے عوام کیا محض ایندھن ہے ۔
جنہیں احتجاج، مظاہرے اور دھرنوں میں استعمال کیا جائے گا،کیا ترقی اور خوشحالی ان کا حق نہیں۔ بلوچستان کے عوام کو اب گلہ وفاق اور اسلام آباد سے نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انہیں تو بلوچستان سے کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے وسائل کو لوٹنے اور لوگوں کومارنے کے، بلکہ اپنے صوبے کی سیاسی جماعتوں سے سوالات کرنے چاہئیں کہ آپ تو ہمارے حقوق کے تحفظ کے بڑے علمبردار بنے پھرتے ہو جبکہ آپ سے ایک یونیورسٹی بل کی مخالفت پر نہیں ہوتی پھر دیگر میگامنصوبوں سے بلوچستان کو کیا ملے گا؟ بہرحال سندھ، پنجاب اور کے پی کی قوم پرست، سیاسی ومذہبی جماعتوں کو داد تو دینی پڑے گی کہ وہ اپنے صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے محض بیانات تک محدود نہیں ہیں بلکہ عملاََ وہ اپنے خطے میں ترقی کا کردار ادا کررہے ہیں اور آج بلوچستان کی نسبت تمام ترسہولیات کے حوالے سے آگے ہیں۔