واشنگٹن: امریکی وزیرخارجہ سینیٹرجان کیری نے افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کوسراہتے ہوئے کہاہے کہ پاکستانیوں نے ثابت کردیاہے کہ دہشتگردانہیں ترقی سے نہیں روک سکتے ،پاک امریکہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ آگے بڑھ رہی ہے ،امریکہ ضرب عضب آپریشن کی کامیابیوں کااعتراف کرتاہے ،پاک امریکہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ پر مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیزکے ہمراہ بریفنگ دیتے ہوئے جان کیری نے کہاکہ امریکہ ضرب عضب آپریشن میں پاکستان کی کامیابیوں کااعتراف کرتاہے ،ہم نیشنل ایکشن پلان پرپاکستان کی سنجیدگی کے معترف ہیں ،دہشتگردگروپ پاکستان کی خودمختاری کے درپے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں اورپاکستانیوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ دہشتگردانہیں ترقی سے نہیں روک سکتے ۔انہوں نے کہاکہ امریکہ پاکستان میں استحکام اورمعیشت کی بہتری چاہتاہے ،ہم پاکستان سے توانائی کے شعبے میں تعاون کررہے ہیں ،تعلیم ،سائنس ،ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری ہورہی ہے ،امریکی جامعات بھی پاکستان میں اپناکرداراداکررہی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ خواتین کوزیادہ مواقع دیکرپاکستان کی معیشت کومضبوط کیاجاسکتاہے ۔خواتین کی تعلیم کے لئے بھی پاکستان میں امریکہ اپناکرداراداکررہاہے ۔انہوں نے کہاکہ امریکہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے سرگرم ہے ،پاکستان کادہشتگردوں کے خلاف تعاون قابل ستائش ہے ۔ضرب عضب آپریشن میں متاثرہونے والے خاندانوں کی بحالی کیلئے پاکستان کو250ملین ڈالردیں گے ۔انہوں نے کہاکہ امریکہ دنیامیں ایٹمی عدم پھیلاؤکیلئے کوششیں کررہاہے ،پاکستان کوبھی اس بات کوسنجیدگی سے لیناچاہئے ،امریکہ افغانستان میں امن کیلیئے پاکستان کی کاوشوں کوسراہتاہے ،پاکستان اس حوالے سے مزیداقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ میں پاکستان کے ساتھ تعلقات اورتعاون کی مضبوط اورپاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کاخواہاں ہوں ۔دہشتگردپاکستان کے نوجوانوں کوتعلیم سے دورکرناچاہتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ معاشی اوردیگرمسائل پراگلے 5سال کے منصوبوں کی پلاننگ کررہے ہیں ۔اس موقع پرسرتاج عزیزنے کہاکہ پاک امریکہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ پرجان کیری کامشکورہوں ،اس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزیدمستحکم ہوں گے ،دونوں ممالک کے درمیان عوامی اورادارتی سطح پراشتراک اورتعاون ضروری ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں ،پاکستان کی جیوپولیٹیکل صورتحال کوسمجھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کیلئے امریکی تعاون کے شکرگزارہیں ۔پٹھان کوٹ واقعہ کے بعدکچھ مسائل پیداہوئے تاہم اس واقعے کے بعدپاکستان نے کچھ اقدامات کئے ،بھارتی وزیراعظم کادورہ پاکستان بھی مثبت پیش رفت تھی ۔انہوں نے کہاکہ ہم دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں اورضرب عضب کامیاب کارروائی ہے ،مسلمان علماء نے داعش کے خلاف فتویٰ جاری کیاہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کوافغانستان میں کشیدگی سے بہت نقصان ہواہے ،پاکستان نے افغانستان میں استحکام کیلئے تعاون کیااورمفاہمتی عمل کیلئے کوششیں جاری ہیں،دریں اثناء امریکی وزیر خا رجہ جان کیری نے کہاہے کہ امریکا، پاکستان اور بھا رت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار رکھتا ہے کیوں کہ اس طرح جوہری ہتھیاروں سے مسلح جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی. اپنے ایک بیان میں جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکا، اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ‘مفاہمت’ کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی پوری کوشش کررہا ہے.اپنے ایک بیان میں انھوں نے بالواسطہ طور پر اْن میڈیا رپورٹس کی بھی تصدیق کی، جن میں کہا جارہا تھا کہ امریکا ‘خاموشی سے’ دو طرفہ مذاکرات کے لیے پاک۔ہندو وزرائے اعظم کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے.جان کیری کا کہنا تھا کہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں. میرا خیال ہے کہ مذاکرات کے لیے دونوں رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے’ ان کا کہنا تھا کہ ہم وہ کام نہیں کرنا چاہتے جس سے توازن بگڑے، ساتھ ہی ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے ملک میں قابلِ شناخت دہشت گردوں کے خلاف ایک بہت مشکل لیکن قانونی جنگ میں مصروف ہے، جو پاکستان کے لیے خطرہ ہے’امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ڈیڑھ لاکھ سے ایک لاکھ اسی ہزار فوجی دستے پاک۔افغان سرحد پر تعینات کر رکھے ہیں.امریکی دفاعی ماہرین کو خدشہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں پاکستان کو اپنے فوجی مشرقی سرحد پر بھیجنے پڑیں گے، جس کی وجہ سے طالبان کو افغانستان سے باآسانی فرار ہونے کا موقع مل جائے گا.امریکا کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہے ، ادھرجوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق ایک نیوکلیئر سمٹ اگلے ماہ واشنگٹن میں ہونے جارہا ہے، جس میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ہندوستانی ہم منصب نریندرا مودی بھی شرکت کریں گے.اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں سیکریٹری آف اسٹیٹ امریکی ٹیم کی قیادت کریں گے، جس میں نیشنل سیکیورٹی کونسل، محکمہ دفاع اور امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے افسران بھی شریک ہوں گے