|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2016

اسلام آباد: وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت منعقد ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ خان زہری نے سندھ کے ساتھ بلوچستان کے پانی کے مسئلے کے حوالے سے صوبے کے موقف کو انتہائی مؤثر طریقے سے پیش کیا جسے وزیراعظم کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی اور وزیراعظم نے بلوچستان کے موقف کو سامنے رکھتے ہوئے سندھ بلوچستان کے وزراء اعلیٰ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل دینے کا اعلان کیا جس میں دونوں صوبوں کے چیف سیکرٹری اور ٹیکنیکل ماہرین بھی شامل ہوں گے۔ کمیٹی متفقہ طور پراجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کرکے دونوں صوبوں کے مابین پانی کے حل طلب مسائل کا جائزہ لے کر انہیں طے کرے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے خوش آئند طور پر ان مسائل کے حل کیلئے آمادگی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دونوں صوبے مل کر افہام و تفہیم اور خوش اسلوبی کے ساتھ یہ مسائل حل کریں جس سے بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ واضح رہے کہ بلوچستان کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ ارسا معاہدے کے تحت دریائے سندھ سے بلوچستان کو اس کے حصے کا پورا پانی نہیں ملتا اور یہ پانی صوبہ سندھ استعمال کرلیتا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے نہری علاقوں کے زمینداروں اور کاشتکاروں کو پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ہر سال آنے والے سیلابوں کے دوران سندھ کی جانب سے سیلابی پانی کا رخ کیر تھر کینال کے ذریعے بلوچستان کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف نصیر آباد ڈویژن میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے سے نظام زندگی درہم برہم ہوجاتا ہے بلکہ سیلابی پانی کے ذریعے ریت اور مٹی آنے سے ڈویژن کی زرعی اراضی کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور اراضی قابل کاشت نہیں رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ نے حب ڈیم سے سندھ کو پانی کی زیادہ فراہمی کے مسئلے کو بھی ٹھوس انداز میں اٹھاتے ہوئے کہا کہ ڈیم اور اس کے کیچمنٹ ایریا کے بلوچستان میں واقع ہونے کے باوجود ڈیم کے پانی میں سندھ کا بلوچستان سے زیادہ حصہ ہے ان کا مطالبہ تھا کہ حب ڈیم کے پانی میں بلوچستان کے حصہ کو بڑھایا جائے اجلاس میں پانی کے حوالے سے اٹھائے گئے بلوچستان کے موقف سے اصولی طور پر اتفاق اور وزیراعظم کی جانب سے اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل بلوچستان کی بڑی کامیابی ہے جس کا سہرا وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبے کی ٹیم کے سر ہے جنہوں نے موثر انداز میں بلوچستان کا کیس اجلاس میں پیش کیا۔