|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2023

بلوچستان ملک کا وہ خطہ ہے جو تمام تر وسائل کے باوجود محرومیوں کا شکار ہے، دہائیاں بیت گئیں مگر بلوچستان ترقی کی دوڑ میں اس تیز رفتاری کے ساتھ شامل نہیں ہوا جس طرح دیگرصوبوں میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے تکمیل کو پہنچے جس سے وہاں کی عوام ان سے مستفید بھی ہورہی ہے۔ بلوچستان میں تو تعلیم، صحت، پانی، مواصلاتی نظام سمیت دیگر بنیادی مسائل آج تک حل نہیں ہوئے۔

طویل رقبے پر منتشر آبادی بلوچستان کی ترقی اتنی آسان نہیں اس کے لیے مکمل پلاننگ کی ضرورت ہے جبکہ دوسرا مسئلہ سیاسی استحکام کابھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔آج بھی پارلیمنٹ میں موجود بلوچستان کی قوم پرست، مذہبی اور دیگر جماعتوں کے بلوچستان کے متعلق منصوبوں سمیت قانون سازی پر تحفظات موجود ہیں مگرانہیں سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔

بلوچستان کے محرومیوں کی ذمہ دار وفاق رہی ہے بڑی بڑی سیاسی جماعتیں حکومتوں میں آئیں، انہوں نے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے بڑے دعوے کئے مگر ان پر عملدرآمد کچھ بھی نہیں ہوا،کوئی بھی وفاقی حکومت اپنے دور میں کسی ایسے منصوبے کی مثال دے جس سے بلوچستان کی عوام مستفید ہورہی ہو، محض یہ کہہ دینا کہ ہمارے دور میں بلوچستان کو اتنے فنڈز دیئے گئے ان منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی مگر کیا وہ فنڈز اور منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔

سی پیک سے بلوچستان کو کتنا فائدہ پہنچا ہے اس بڑے منصوبے سے تو دیگر صوبوں کو زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔ سفری سہولیات، بجلی گھر، انڈسٹریز سمیت تمام ترپروجیکٹ دیگرصوبوں کو مل رہے ہیں اور وہ تعمیر بھی ہوتے جارہے ہیں بلوچستان کو صرف ایک گرین بس اب تک ملا ہے کیا یہ زیادتی نہیں ہے۔ کیاسوئی گیس کی مد میں بلوچستان کو جائز رائلٹی مل رہی ہے؟ سیندک، ریکوڈک منصوبوں سے بلوچستان کے عوام کو کتنا روزگار ملا؟ جہاں یہ منصوبے موجود ہیں جو کمپنیاں کام کررہی ہیں

انہوں نے اس علاقے کے عوام کو فائدہ پہنچایا؟ وفاق کو منصوبوں سے ملنے والی رقم کے ذریعے بلوچستان کے ان علاقوں کو ترجیح دی گئی، بالکل نہیں؟ یہ بات سب پر عیاں ہے مگر چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے۔ بلوچستان کو قانونی اور آئینی طریقے سے تمام تر اختیارات نہیں ملیں گی توبلوچستان ترقی نہیں کرے گا۔ نیک نیتی کے ساتھ بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ صوبے سے باہر بیٹھے چند ایک صحافی بلوچستان سے متعلق معلومات تک نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود اپنے تئیں صوبے کے مسائل پر بڑے بڑے تبصرے کرتے ہیں جس کی ایک مثال سامنے ہے کہ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ایک معروف صحافی جو ایک بڑے میڈیا ہاؤس سے نہ صرف تعلق رکھتا ہے

بلکہ اہم عہدے پر بھی فائز ہے، ان کے مطابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ پر سردار اختر جان مینگل اور نوابزادہ خالد مگسی کے تحفظات اس لیے ہیں کہ ان کے درمیان قبائلی تنازعہ دیرینہ ہے۔

اس سے بڑا المیہ معلومات کے حوالے سے اورکیا ہوسکتا ہے موصوف کو صرف ایک نظر گورنربلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ پر دوڑانی چاہئے تھی کہ ان کا تعلق کس جماعت سے ہے

اور انہیں کس نے گورنر بلوچستان کے لیے نامزد کیا۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کتنی بڑی خلیج اب بھی بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان معلومات کے حوالے سے موجود ہے پھر مسائل کو کس طرح سے اس طرح کے میڈیا پرسنز اجاگر کرسکتے ہیں۔ بہرحال بحث اب یہ نہیں کہ کون کتنا مسائل پر بات کرے گا بلکہ معاملہ یہ ہے

کہ بلوچستان کومرکزمیں آئینی اور قانونی حیثیت کے مطابق نمائندگی دی جائے اور بلوچستان سے منسلک منصوبوں میں جائز حصہ دیاجائے تب جاکر بلوچستان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوگا۔