|

وقتِ اشاعت :   March 2 – 2016

کوئٹہ: نیشنل پارٹی اور مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے مرکزی ترجمان کے حوالے سے خود علیحدگی اختیار کر نے کی بیان پر تعجب اور حیرانگی کا اظہار کر تے ہوئے سختی سے تردید کی پارٹی کے بانی اور عوامی طبقے کی ایک ادنی سینئر کارکن اور تسلسل کے ساتھ بی ایس او قیادت سے لیکر آج تک بلوچ قوم تحریک میں حقیر سا کردار ادا کر تے ہوئے کارکنوں کی اجتماع قیادت والی جماعت بی این وائی ایم اور بی این ایم کی بنیاد ڈالی میں نے اپنے ساتھیوں سمیت 2008 منعقدہ قومی کانگرنس کے وقت غیر جمہوری سازشی رویوں کے خلاف بائیکاٹ کیا تھاسب کارکنوں کی پر زور خواہش پر دوبارہ ایوان میں آکر شرکت کی دوسری بار حالیہ کانگرنس میں سٹیج سے تقریب کے دوران علیحدگی کا اعلان پھر بے لوث کارکنوں اور قومی کانگرنس کی کونسلران کی رائے کی قدر کر تے ہوئے صدر کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور بلوچستان قومی وحدت سے تعلق رکھنے والے واضح اکثریت کونسلران نے میرا ساتھ دیا باوجود یہ کہ بلوچستان کے بعد اضلاع کے کونسلران الیکشن کی بجائے سلیکٹ کئے گئے تھے جس پر ضلع کوئٹہ کے کارکنوں نے شدید احتجاج کر تے ہوئے بمقام قومی کانگرنس تک جلوس نکالا یہ میری اخلاقی فتح تھی جہاں تک احرام دینے کا تعلق ہے صدارت کے سبکدوش ہونے سے لے کر آج تک رسمی یا غیر رسمی طور پر مجھ سے کسی سیاسی یا معروضی حالات پر گفتگو تک پرہیز کی مشورے تو در کنار حقیقت یہ ہے کہ شخصی قیادت نے پارٹی کے نہ صرف آئین منشور اور بنیادی اہداف سے انحراف کے ساتھ ساتھ اجتماعی قیادت کے اصول، ورکرز کی بالادستی کی کلچر، ورکروں اور پارٹی کے ہمدرد دانشوروں کا فیصلہ کن کردار تنقیدی اور خود تنقیدی کے اصول کے طور پر آزادانہ بحث ومباحثے کا کلچر، پارٹی کے اہم اداروں، قومی کانگریس اور سینٹرل کمیٹی کے فیصلوں میں اجتماعی قیادت کے اصول کو نہ صرف نظرانداز کیا ہے بلکہ ان اداروں کو بشمول ورکرز کی آواز کو یکسر غیر موثر بنا کر ان اداروں کو یر غمال بنا دیا گیا ہے اس کا واضح ثبوت پارٹی کے حالیہ حکومت میں سب سے اقلیت میں ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ کے عہدے کے حصول ریاستی طاقت کے نہتے معصوم بلوچ عوام پر بلوچستان کے ہر علاقے میں بے رحمانہ استعمال چادر چاردیواری کے تقدس کی پامالی ، لاپتہ افراد کی بازیابی کے بجائے مزید لا پتہ اور سیاسی کارکنوں کا سلسلہ جاری ماروائے آئین اور قانون ، مارو اور پھینکو کی پالیسی میں برابر کے شریک کا کردار ادا کر رہے ہیں،جب پارٹی کے تمام ادارے بشمول قومی کانگریس ، سینٹرل کمیٹی ، شعوری طور پر غیر موثر اور غیر فعال بنا دیئے جائیں تو تمام کارکنوں بشمول میرے جیسے ادنیٰ کارکن اور ہمدرد دانشوروں کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنا صدائے احتجاج ، بلوچ قومی تحریک کی مخالفت میں حالیہ حکومتی بلوچ نسل کش پالیسیوں میں پارٹی کی شرکت اور عوام دشمن کردار کیخلاف دو ادارے اہم ہے، ایک ادارہ کے پارٹی کے بے لوث کارکنوں اور ہمدرد دانشوروں کا اور دوسرا اہم ادارہ عوام کا رہ جاتاہے، اور اسی حکمت عملی پر فعال اور موثر جدوجہد کرتے ہوئے مجھ سمیت پارٹی کے تمام کارکن عمل پیرا ہے، اور پارٹی کے اندر رہتے ہوئے فرد واحد کی قیادت اور مراعات یافتہ مخصوص گروپ کے بلوچستان اور بلوچ عوام دشمن ناروا ظالمانہ پالیسیوں کیخلاف منظم جدوجہد جاری رکھیں گے، اس وقت ایک طرف بی این وائی ، ایم بی این ایم والی نظریہ فکر اور حکمت عملی کا ساتھ دینے والے باشعور بے لوث سیاسی کارکن اور ہمدرد دانشور اسی پلیٹ فارم سے قوم دوست اور عوام دوست جدوجہد میں مظلوم عوام کو منظم کر رہے ہیں، جدید نو آباد یاتی کے نظام کیخلاف اور دوسری طرف بی این ڈی پی والی سوچ کے ساتھ وابستہ شخصی قیادت اور مزید مراعات کے حصول کیلئے مخصوصمراعات یافتہ گروپ ، سٹیٹسکو کے فرسودہ آمرانہ جابرانہ نظام کے مستحکم کرنے کی ناکام کوششوں میں سر گرم عمل ہے ،آخر میں انہوں نے پارٹی کے بے لوث مخلص کارکنوں اور ہمدر دانشوروں سے پر زور اپیل کی کہ وہ انتھک جدوجہد کر تے ہوئے نہ صرفے پارٹی کو منظم کریں بلکہ پارٹی کو دوبارہ بی این ایم والی ٹریک پر لائیں۔