|

وقتِ اشاعت :   August 24 – 2023

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ عمران خان کو کندھوں پر بٹھا کر لانے والوں کو آنکھیں دیکھائی جس کی انہیں سزا مل رہی ہے، سی سی آئی اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو پارسل کر کے لایا گیا،بیک جنبش قلم بلوچستان کی آبادی 70لاکھ سے زائدکم کی گئی یہ فیصلہ صوبے کے حقوق غضب کر نے کا معجب بنے گا، ملک میں آئین کے تحت 60یا 90دن میں انتخابات ہونے چاہیئں کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں انتخابات میں تاخیر سے کچھ ملے گا جب انہیں کچھ نہیں ملے گا تو وہ ہم سے زیادہ سخت الفاظ اور موقف اختیار کریں گے،

جب تک عوام کو انکے جائز حقوق نہیں ملیں گے بلوچستان سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، اگر انتخابات ہوئے تو سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کے بجائے اپنی اپنی حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیں گی، کچھ لوگوں نے سینیٹ میں کہا کہ مسنگ پرسنز کی تعداد 150سے زائد نہیں ہے انہی کے دور میں 450لوگ بازیاب ہوکر کہاں سے آئے اور ان سب کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔یہ بات انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں قانون دان راجہ جواد ایڈوکیٹ کی اپنے ساتھیوں سمیت بی این پی میں شمولیت کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ جہانزیب، ملک نصیر شاہوانی، اختر حسین لانگو، غلام نبی مری، موسیٰ بلوچ، شکیلہ نوید دہوار سمیت دیگر بھی موجود تھے۔سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان کو سیندک، ریکوڈک، سوئی گیس سمیت مختلف طریقوں سے ہر ایک نے لوٹنے کی کوشش کی ہے اقتدار سے جانے والی جماعتوں نے اس تابوت میں آخری کیل بھی ٹھوک دیا بلوچستان میں 2023میں ہونے والی مردم شماری میں صوبے کے عوام اور سیاسی جماعتوں نے جی جان سے حصہ لیا صوبے کو ہمیشہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہونے کی وجہ سے پسماندہ رکھا گیا مگر اب جب ہماری آبادی بڑھنی تھی لیکن بیک جنبش قلم صوبے کی آبادی73لاکھ کم کردی گئی اس آبادی میں اضافے سے صوبے کو قومی اسمبلی کی 6نشستیں اور این ایف سی میں 8.5فیصد حصہ ملنا تھا

لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی ہمارے حقوق پر لوٹ مار کی روش برقرار رکھی گئی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں 6مردم شماریاں ہوئیں ان میں سے سب سے کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا گیا اس بار ہماری آبادی حقیقی طور پر ابھر کر سامنے آئی تو سی سی آئی کا خصوصی اجلاس بلا کر ہماری آبادی کم کی گئی اور اس مردم شماری کو منظور کرلیا گیا اور اب اس مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کو جواز بنا کر انتخابات میں تاخیر کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن امان کا مسئلہ ہے یہاں انتخابات میں امیدوار اپنے حلقے میں جانا تو دور کی بات وو ٹ ڈالنے بھی نہیں جا پاتے ماضی میں 25ووٹ لیکر بھی نمائندے متنخب ہوتے رہے ہیں 2018کے انتخابات میں ہر حلقے میں 15سے 18ہزار ووٹ لینے والے لوگ کامیاب ہوئے مردم شماری کے دوران عملہ موٹر سائیکلوں پر بھی دور دراز علاقوں میں گیا اور مردم شماری ہوئی مگر نتائج نے ایک بار پھر ہمیں ہمارے حق سے محروم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا ہر آنے والے حکمران کہتا ہے کہ وہ بلوچستان میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہا دیں گے مگر وہ کامیاب اس لئے نہیں ہوتے کیونکہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھتے ہی نہیں جب تک عوام کو انکے جائز حقوق نہیں ملیں گے بلوچستان سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہماری تقاریر پر ایوان میں تو ڈیسک بجائے جاتے ہیں مگر ہماری یہ آواز ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس یا وزراء کے دفتر میں سنائی نہیں سنی جاتیں پی ٹی آئی کے اتحادی بنے تو ان سے بلوچستان کے ترقیاتی، سیاسی، مسنگ پرسنز،گوادر کی آبادی کے تحفظ سمیت دیگر مسائل پر دستخط کئے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسائل حقیقی ہیں لیکن کچھ لوگوں نے سینیٹ میں کہا کہ مسنگ پرسنز کی تعداد 150سے زائد نہیں ہے انہی کے دور میں 450لوگ بازیاب ہوکر کہاں سے آئے اور ان سب کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، خط لکھے، کابینہ میں مسائل پر بات کی لیکن ہماری عدددی تعداد اتنی نہیں ہے کہ اپنی بات منوا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) کو چیخ چیخ کر سمجھانے کی کوشش کی کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے اب نہیں یہ پوچھنے اور بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ شنید میں آیا ہے کہ سی سی آئی اجلاس سے قبل سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کراچی میں تھے معلوم نہیں انہیں پوسٹ آفس یا فوڈ پانڈا سے پارسل کر کے منگوایا گیا وہ سی سی آئی اجلاس میں مردم شماری کے حوالے سے اپنے موقف کا جواب خود دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وڈھ کا مسئلہ آج کا نہیں ہے اب یہ مسئلہ ہر جگہ موجود ہے مشرف کے زمانے میں مسلح جتھے بنائے گئے جنہیں ہم ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیں انہیں سیاسی جماعتوں اور آزادی کی بات کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا گیا بلوچستان میں با وردی اور بغیر وردی،بار ریش اور بغیر ریش کے لوگ قوم پرستوں کو ختم کرنے کے لئے استعمال ہوئے ہیں اور اب بھی کام کر رہے ہیں۔+

انہوں نے کہا کہ ہم نے مسنگ پرسنز کمیشن میں حقائق تحریرکئے ہیں جنکی ہمیں سزا دی جارہی ہے اگر سزا دینی ہی ہے تو کچھ حصہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی دیا جائے جس کے حکم پر یہ کمیشن بنایا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لانے والے اسے کندھوں پر بٹھا کر لائے اور جب اسی جماعت نے انکی داڑھی کھینجی تو اسے زمین پر دے مارا پی ٹی آئی کی مزاحمت کو اپنی کچھ ہی عرصہ ہوا ہے ہماری تاریخ ان سے کئی برس طویل ہے انکے لئے ہنوز دلی دور است۔ایک سوال کے جواب میں سردار اخترجا ن مینگل نے کہا کہ مہنگائی اور صوبے میں بیڈ گورننس میں جتنی ذمہ داری ہماری بنتی ہے ہمیں اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا موقف آئین کی حکمرانی تھا آئین کہتا ہے کہ 60یا 90دن میں انتخابات ہو جانے چاہیئں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قدوس بزنجو کی ڈولی یا جنازے کو کندھا دیا یا نہیں وہ الگ بات ہے مگر جام کمال خان کا مشرف دور سے بھی بد ترین زمانہ تھا جس میں منتخب ارکان پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئیں غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کر کے غیر منتخب لوگوں اور ڈیتھ اسکواڈز کو نوازا گیا لیکن قدوس بزنجو کی حکومت میں فرینڈلی اپوزیشن اس لئے رہی کیونکہ اس میں منتخب اراکین کو پی ایس ڈی پی میں انکا حق دیا گیا حلقوں میں مداخلت نہیں کی گئی قدوس بزنجو یا جام کمال خان کی پیشانی پر نہیں لکھا تھا کہ انکے ارادے کیا ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کی اکثریتی فیصلہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے کچھ جماعتوں کو اس سے اختلاف بھی تھا لیکن اکثریتی فیصلے کو تسلیم کیا گیا لیکن پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد جو فیصلے ہوئے اور اب جو فیصلے ہوئے ہیں ان سے بڑی بڑی جماعتیں بھی ناواقف ہیں۔

سردار اختر مینگل نے مزید کہا کہ ہم نے جو ناراضگی کا اظہار کیا اور خط لکھا ہے آنے والے وقت میں دوسری جماعتیں اس سے بھی سخت الفاظ استعمال اور خط لکھیں گی کچھ لوگ اس خواہش میں ہیں کہ شاید انہیں کچھ ملے گا جب انہیں کچھ نہیں ملے گا وہ ہمارا موقف استعمال کر یں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اتحادی تھا پہلے بھی اس پلیٹ فارم لڑنے سے بات ہوئی مگر کوئی فیصلہ نہیں ہوا میرا خیال ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو تمام جماعتیں اپنی اپنی حیثیت میں انتخابات لڑیں گی۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں بدلتے ہوئے حالات میں حکمرانوں کو اب کسی ایک کشتی کا سہارا لینا ہوگا مسئلہ یہ ہے کہ پرانی کشتی میں گئے تو نئی کشتی والوں نے جو قرض دیا ہے وہ سود سمیت وصول کریں گے اگر نئی کشتی میں گئے تو پرانے والے ابے ڈاڈے کا حساب بھی لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کے لئے مشکل حالات ہیں افغانستان کے حالات ہمیشہ سے پاکستان پر اثر انداز ہوئے ہیں بلوچستان کے حالات خراب ہونگے تو اسکا اثر ملک پر بھی پڑے گا۔

حکمرانوں کے لئے اسلام آباد اور لاہور محفوظ بنانا ترجیح رہی ہے لیکن جن فیصلوں سے کوئٹہ غیر محفوظ تھا آج اسلام آباد اور جی ایچ کیو بھی غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 9مئی کی طرح کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جو لوگ عمران خان کو لائے انہیں توقع نہیں تھی کہ ہمارا بچہ آنکھیں دیکھا ئے گا عمران خان کو اسی کی سز ا مل رہی ہے معلوم نہیں ان واقعات کے پیچھے کون تھا مگر سرکاری یا نجی املا ک ہوں ایسے بہت سے واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں جہاں شہرکے شہر گاؤں کے گاؤں اجاڑے گئے اگر ان افراد کو 10فیصد سزا بھی مل جاتی تو ہمیں آج تسلی ہوتی۔انہوں نے کہاکہ بی این پی میں ایسے وقت میں شمولیت جب پارٹی نہ اقتدار میں ہے اور پارلیمنٹ میں بھی ختم ہوگئی ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر سیاسی کارکن اقتدار کے پیچھے نہیں ہوتا۔

راجہ جوادایڈوکیٹ نے شمولیت کرکے ثابت کیا ہے کہ بی این پی تمام اقوام کی جماعت ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ بلوچستان میں آباد ہیں بلوچستانی ہیں۔اس موقع پر راجہ جوا د ایڈوکیٹ نے بی این پی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار اخترمینگل کے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑی اور آواز بلند کی ہے۔بی این پی نے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل کو اٹھانے اور انہیں حل کرنے میں کردار ادا کیا آج وکلاء کو بلوچستان کے لئے آگے آنا ہوگا میں اپنے ساتھیوں سمیت بی این پی میں شمولیت اختیار کر نے کا اعلان کرتا ہوں۔