کوئٹہ: بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں جاری کارروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کلچر ڈے کے نام پر فورسز نے اپنے بیرکوں میں اپنے ہمنواؤں کے ساتھ بلوچی دستار پہن کر بلوچوں کے ساتھ نمائشی یکجہتی کا اظہار کیا۔ جن کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگ آلود ہوں، اوروہ بلوچ کلچر ڈے منائیں، یہ نمائش سے زیادہ کچھ نہیں۔ دوسری طرف بندوق کی نوک پر ایک دو علاقوں میں فورسز کے حصار میں دو درجن بندوں کی ریلی نکال کر فوٹو سیشن کا انعقاد کیا۔ جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ چھ سال قبل بی ایس او کی اسی کلچر ڈے تقریب پر دستی بم پھینک کر نوجوان بلوچ طلباکو شہید وزخمی کیا گیا۔آج جب بلوچ قوم سوگوار ہے اور صرف لاشیں وصول کرنے و دفنانے میں مصروف ہے تو انہوں نے جشن و تقریبات کا آغاز کیا ہے۔کلچر ڈے کب اور کیسے منانا ہے ، اس کا اختیار بلوچ قوم کے پاس ہے۔ ریاستی اداروں کو سات دہائیوں میں پہلی مرتبہ بلوچ کلچر ڈے منانے کا خیال آیا ہے۔ترجمان نے کہا کہ دو مارچ کو کیچ لیویز انتظامیہ کو تین لاپتہ بلوچوں کی لاشیں حوالہ کرکے حسب معمول مقابلے میں مارے جانے کاڈرامہ رچایا ۔چھ مہینے پہلے گوادر سے لاپتہ کئے گئے نو عمر ثناء بلوچ کی لاش بھی ان میں شامل ہے، جس کے سینے پر دو گولیوں کے نشان پائے گئے ہیں۔لاپتہ بلوچ فرزندوں کا قتل دراصل بلوچ قوم کو طاقت کے زور پر خوفزدہ کرنے کی کوششیں ہیں۔بلوچ فرزندوں کی حراستی قتل معمول چکاہے۔مگر میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے بھی یک طرفہ ریاستی اداروں کے ترجمان کے پریس ریلیز پر اکتفا کرکے بلوچوں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے دبائے ہوئے ہیں۔