کوئٹہ :بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ہماری جماعت انتخابات میں مسنگ لاپتہ افراد کی بازیابی کے نعرے کے ساتھ حصہ لے گی ہماری کوشش ہے کہ ملک بھر کی طرح عالمی سطح پر اس مسئلے کے پر امن اور مستقل بنیادوں پر حل کے خواہاں ہے یہی وجہ ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ بھی ملکی اور عالمی سطح پر سود مند ثابت ہوگی۔
ایوان بالا ایوان زیریں سمیت ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھانے کے باوجود اس کو سنجیدگی سے نہیں حل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سلگتے ہوئے معاملے کی بہتری کے لئے آگے بڑھنا ہوگا اگر حکومت اور اداروں نے 400 لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا ہے تو 2000 کے قریب لوگوں کو لاپتہ کردیا گیا ہے
اگر ان پر جرم ثابت ہوا تو عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جائے کیونکہ سب سے زیادہ اذیت ناک عمل انتظار ہیں لاپتہ افراد کے لواحقین روز اس اذیت ناک عمل سے گزرتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے مستونگ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں بدھ کو منعقدہ سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا اس موقع پر نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر میر کبیر احمد محمد شہی، نصر اللہ بلوچ، مابت کاکا، احمد جان، بی یو جے صدر عرفان سعید، راحب بلیدی ایڈووکیٹ، چنگیز حئی بلوچ ایڈووکیٹ، محمود کاظمی ایڈووکیٹ، حسن مینگل ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شاری بلوچ، ابرار بلوچ، بجار خان مری، مٹھا خان مری، محمد اسلم، سعید احمد شاہوانی سمیت دیگر نے خطاب کیا اس موقع پر بی این پی کے مرکزی رہنماء حاجی باسط لہڑی، ٹکری شفقت لانگو، نیاز بلوچ، علی احمد لانگو، غلام نبی مری، صباء بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں حکومتی سطح پر خواتین کشمیر، آزادی صحافت سمیت مختلف عالمی دنوں کو سرکاری سطح پر منایا جاتاہے مگر لاپتہ افراد کے دن کو تواتر کے ساتھ نظر انداز کیا جاتاہے۔وزارت انسانی حقوق بھی لاپتہ افراد کے دن کو منانے کیلئے تیار نہیں۔
ہمارے ملک میں داڑھی میں تنکا نہیں بالکل مکمل داڑھی ہی داغ دار ہے۔لاپتہ افراد مسائل پر کئی کمیشن بنائے گئے کئی عدالتیں لگائی گئیں لیکن آج تک کوئی بازیاب نہیں ہوسکا۔6فروری 1970 و مجھے اطلاع ہوئی کے میرے بڑے بھائی اسد مینگل کو لاپتہ کردیا گیا ہے۔چند لمحوں بعد ہی ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اسد مینگل اب اس دنیا میں نہیں رہے۔لیکن آج تک گہری نیند میں یاد آتے ہیں اسد مینگل کیلئے بیدار ہوجاتا ہوں۔ہمیں یہ معلوم ہے کہ اسد مینگل اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اس کے باوجود ہم اس کے انتظار میں ہیں۔جب اسد مینگل کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہا جاتاہے ملکی سا لمیت خطرے میں ہے۔اگر تمہارے ملک کی سالمیت ہمارے خون اور لاشوں میں رکھی گئی ہے
تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔مسخ شدہ لاشوں میں گوشت اور چمڑہ ختم ہوجاتا ہے لیکن ان کی ہڈیاں صدائیں لگاتی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک بچہ نے تربت میں خودکش حملہ کیا۔میں کسی بھی صورت بچیوں کے خودکش حملوں کی حمایت نہیں کرونگا لیکن یہ سوچنا چاہئے کہ وہ خودکش حملے پر مجبور کیوں ہوئیں۔خودکش حملہ آور بچی کے ماموں کو لاپتہ کیا گیا تھا اور اس کے نانا حاجی عبد اللہ کو پیغام دیا گیا کہ وہ بی این پی چھوڑ دیں تو ان کے لاپتہ افراد کو چھوڑ دینگے۔میں نے حاجی عبد اللہ کو کہا ہے کہ اگر پارٹی چھوڑنے پر اگر آپ کے دو بیٹے واپس آتے ہیں
تو یہ خوشی کی بات ہے۔حاجی عبداللہ اپنے بیٹوں کے لاپتہ ہونے پر اتنا افسردہ نہیں تھا جتنا وہ بی این پی کو چھوڑنے پر تھا۔انسان کی موت سے زیادہ اذیت اپنے لاپتہ افراد کے انتظار میں ہے۔آج پورا بلوچستان اذیت سے دوچار ہے۔لاپتہ افراد کمیشن کے وقت میرے پاس صرف دو چوائس تھی۔لاپتہ افراد کمیشن کی چیئرمین شپ یا راہ فرار اختیار کرنا تھا۔اگر کمیشن سے راہ فرار اختیار کرلیتاتو آج کہا جاتا کہ راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔لاپتہ افراد کمیشن کے وقت کوئٹہ دورے پر کہا تھا کہ اس کمیشن سے کوئی توقع نہیں رکھنا۔
لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ پیش کرنے پر دھمکیاں دی گئیں۔ہم نوکریاں۔نالیاں بنانے کا نعرہ نہیں لگاتے بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا نعرہ لگائیں گے۔اب صرف ہمارا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے یہی نعرہ انتخابات میں ہماری جماعت کا ہوگا۔ وزیراعظم بننے سمیت کسی بھی معاملے میں صرف ایک ہی نعرہ ہوگا لاپتہ افراد کی بازیابی۔لاپتہ افراد کیلئے بلوچستان کے لوگ جس حد تک کہیں گے اس حد تک جائیں گے۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر میر کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے مجھے اسلام آباد پروگرام کیلئے مدعو کیا لیکن میں نے لاپتہ افراد کے پروگرام میں شرکت کی وجہ سے معذرت کرلی۔ہماری مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔بلوچستان کے شہری اپنے لاپتہ پیاروں سے کئی سال سے دور ہیں۔بلوچستان میں کوئی ایسا گھر،قوم،قبیلہ نہیں جو لاشوں اور لاپتہ افراد کے مسئلے سے دوچار نہ ہو۔ سردار اختر مینگل کے بڑے بھائی آج تک لاپتہ ہیں۔اس ریاست میں آئین اپنا دفاع نہیں کرسکتا جو آتا ہے اس کو پامال کرتاہے۔ جو آئین خود محتاج ہو وہ مجھے کیا تحفظ دیگا۔لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین کے آنسو ایک منٹ تک نہیں رکتے کئی مائیں رو رو کر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئی ہیں۔لاپتہ نوجوانوں کی منگیتر ہر گھڑی اذیت سے دوچار ہوتی ہیں۔ بلوچستان کے لاپتہ نوجوانوں کی منگیتر کہتی ہیں کہ ان کو بتایا جائے کہ وہ انتظار کریں یا نہیں۔ہمیں آئین اور حق و حقوق پر بات کرنے پر بھی غدار قرار دیا جاتاہے۔ججز 13 لاکھ روپے تک تنخواہیں لیتے ہیں ہم ان کو کہتے ہیں ہمارے لاپتہ افراد کو اپنی عدالتوں پر پیش کروائیں۔اگر ہمارے لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش نہیں کرایا جاتا تو پھر کھربوں روپے کیوں عدالتوں پر لگائے جاتے ہیں۔زورآور کیلئے قانون مختلف اور کمزور کیلئے مختلف ہے۔نیشنل پارٹی بلوچستان کے سنگین مسائل پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔
ہم نے ڈھائی سالہ نیشنل پارٹی دور حکومت کو سنبھالنے کیلئے میں صرف مطالبات رکھے۔ نیشنل پارٹی نے کارڈ ہولڈر سے کارڈ کی واپسی اور بلوچ مسئلہ کو ایمانداری سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔اس موقع پر نصر اللہ بلوچ، مابت کاکا، احمد جان، بی یو جے صدر عرفان سعید، راحب بلیدی ایڈووکیٹ، چنگیز حئی بلوچ ایڈووکیٹ، محمود کاظمی ایڈووکیٹ، حسن مینگل ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شاری بلوچ، ابرار بلوچ، بجار خان مری، مٹھا خان مری، محمد اسلم، سعید احمد شاہوانی سمیت دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچستان کا مسئلہ نہیں اس مسئلے سے ملک بھر کے لوگ متاثر ہیں اور مختلف حوالوں سے مختلف صوبوں، شہروں، علاقوں میں لاپتہ افراد کے پیارے ان کی بحفاظت بازیابی اور منظر عام پر لانے یا عدالتوں میں پیش کرنے کے لئے اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں لیکن کسی بھی ادارے نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان کے لواحقین کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جس کی وجہ سے وہ اس نہج تک چلے گئے کیونکہ انتظار کی اذیت سے وہی واقف ہیں جو اس دردناک انتظار کی اذیت سے گزر رہا ہے۔