|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2023

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر پیدا ہوگئی ہے متواتر حملے دہشت گردوں کی جانب سے کئے جارہے ہیں ، دہشت گرد گروپس سرحد پار کرکے ملک کے مختلف علاقوں میں داخل ہوکر حملے کرتے ہیں جبکہ سرحد پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں اس پر پہلے بھی حکومت وعسکری قیادت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کہ افغان سرزمین کو دہشت گرد پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں جبکہ امریکہ کے چھوڑے گئے آلات دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔
، جدید اور بڑے ہتھیاروں سے دہشت گرد کارروائی کررہے ہیں جس میں خود کش حملے، پلانٹڈدھماکوں، فائرنگ سمیت دیگر حملے شامل ہیں۔

جس پر پاکستان نے بارہا افغان عبوری حکومت کے سامنے اپنا مؤقف رکھا ہے کہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے تاکہ خطے میں غیر یقینی اور بدامنی کی صورتحال پیدا نہ ہو۔
کیونکہ آج اگر یہی دہشت گرد پاکستان کے اندر کارروائیاں کررہے ہیں تو آنے والے وقت میں وہ دوسرے ممالک کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں ۔

اس لیے مشترکہ طور پر دہشت گردی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں دستیاب جدید ہتھیاروں پر تشویش ہے، افغانستان میں یہ جدید ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔

اور ان ہتھیاروں سے پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ ہم یقین رکھتے ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد امن کی سرحد ہونی چاہیے، اگر پاکستان کی طرف سے سرحد بندکی گئی ہے تو اس کی وجہ سکیورٹی کی سنگین صورتحال ہے۔
ہم افغان حکومت سے اس متعلق مذاکرات کررہے ہیں، پاک افغان بارڈرپرحالیہ واقعہ سے متعلق عبوری افغان حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔چترال حملے پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ چترال کی صورتحال پر افغان حکام سے اپنی تشویش کا اظہارکیا ہے، اس صورتحال پرہوم ڈپارٹمنٹ اورمتعلقہ ادارے تفصیل دے سکتے ہیں۔

پاک روس تعلقات پر ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان اہم تعلقات ہیں، دونوں ممالک کے درمیان متعدد وفود کا تبادلہ بھی ہوا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت پاکستان کے بارے میں تبصروں کی بجائے اپنے چیلنجزپرتوجہ دے۔

واضح رہے کہ 6 ستمبر کی رات چترال کے علاقے کیلاش میں پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی جانب سے 2 فوجی چوکیوں پر حملہ کیا گیا جس میں پاک فوج کے 4 بہادر جوان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے حملہ پسپا کرکے دہشت گردوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا، فائرنگ کے تبادلے میں 4 جوان شہید ہوئے اور 12 دہشت گرد ہلاک جب کہ بڑی تعداد میں شدید زخمی بھی ہوئے۔

بہرحال یہ خطے کے لیے نیک شگون نہیں ہے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی ہے مگر ایک بار پھر دہشت گرد متحرک ہوچکے ہیں جسے روکنے کے لیے پڑوسی ممالک سمیت عالمی برادری کو بھی اپنا کردار اداکرنا ضروری ہے تاکہ خطے میں بدامنی کی نئی لہر دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے اس لیے موجودہ صورتحال کے تناظر میں اولین ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چا ہیے تاکہ بڑے سانحات رونما نہ ہوں۔