مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) سے مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) کوتجارت کی ممکنہ بندش سے عام بلوچ کا نہ صرف معاشی قتل ہوگا بلکہ بلوچستان میں جاری اِنسرجنسی میں بھی اضافہ ہوگا۔ ان پابندیوں سے سرحد کے دونوں اطراف آباد بلوچوں میں بے چینی کی فضا قائم ہوگی۔ حکومت کو ان اقدامات سے قبل بلوچستان میں روزگار کے متبادل ذرائع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کاروبار بند کیے گئے اور متبادل کچھ نہ ہوا تو اس سے دیگر معاشرتی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ حکومت سب سے پہلے ان علاقوں کو ایک بڑا معاشی پیکج دے، اس پر عمل درآمد کے بعد بے شک اس کاروبار پر پابندی لگادی جائے۔ یہ ایک بہتر فیصلہ ہوگا جس سے بلوچستان کے ابتر حالات میںبہتری کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ کوئی معاشی پیکج دیے بغیر اس طرح کی پابندیاں عوام کو مزید دیوار کے ساتھ لگانے کے مترادف ہوگا کیونکہ یہ کاروبار لاکھوں لوگوں کا واحد روزگار ہے۔ ان کے گزربسر سمیت تمام ضروریات زندگی بھی ایرانی اشیا کے اردگردگھومتی ہیں۔ ایرانی تیل پر بندش سے عوام کا معاشی قتل ہوگا اور لوگ نانِ شبینہ کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے اور انکے گھروں کے چولہے تک بجھ جائیں گے۔
بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں نہ صنعتیں ہیں اور نہ ہی زراعت کہ جس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہوسکے۔ یہاں پر کاروبار کا واحد ذریعہ صرف اور صرف مختلف ایرانی اشیا اور تیل ہے۔
پاک ایران بارڈر 909 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، کیچ، پنجگور اور گوادر سے متصل علاقہ ہے جس کے دوسری جانب ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ کسی زمانے میں یہ پورا ایک ہی علاقہ تھا۔ برطانوی سامراج نے گریٹر بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ آج بلوچ سرزمین کا ایک حصہ موجودہ ایران، دوسرا حصہ موجودہ افغانستان اور تیسرا حصہ موجودہ پاکستان میں ہے۔ برطانوی سامراج 13 نومبر 1839ء کوخود مختار ریاست بلوچستان پر حملہ آور ہوا۔’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کے نتیجے میں بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 1871ء میں ایک متنازعہ لکیر گولڈ سمتھ لائن کھینچی گئی جس کے تحت بلوچستان کا مغربی حصہ موجودہ ایران کو دے دیا گیا۔ 1893ء میں ایک دوسری لکیر، ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی۔ اس لائن کے تحت بلوچستان کا شمالی حصہ افغانستان کو دے دیا گیا۔ یہ موت کی لکیریں (سرحدیں) بلوچ قوم کی رضامندی، معاشی مفاد اور سماجی بہبود کے خلاف کھینچی گئیں۔
“گولڈ سمتھ لائن” کے قیام سے اب تک ہزاروں بلوچ موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ زندہ رہنے کے لئے اشیائے خورونوش اور تیل لارہے تھے۔ انہیں سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے موت کے گھاٹ اتارا۔ اب یہ لائن ایک خونی لکیر بن چکی ہے۔
ایرانی تیل کے کاروبار کو چوری کا نام دیا جارہا ہے جبکہ یہ صدیوں سے جاری ایک خاندان سے دوسرے خاندان کے درمیان لین دین کا ایک سلسلہ ہے۔ جس سے سرحدی علاقوں میں آباد لوگوں کا گزر بسر ہوتا ہے۔ یہ صدیوں پر محیط تجارت ہے جو ہنوز جاری ہے۔ اسے چوری نہیں کہا جاسکتا، اصل چوری تو بلوچستان کے ضلع چاغی میں سینڈک اور ریکوڈک کے منصوبوں میں ہورہی ہے۔ لاکھوں ٹن سونا، چاندی اور دیگر معدنیات بیرون ملک بھیجی جارہی ہیں، حکمرانوں نے اپنی چوری کو تو قانونی شکل دے دیا ہے جبکہ اس سرزمین کا اصل مالک “بلوچ” ہے جن کی مرضی کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے۔ ان منصوبوں سے عام بلوچ کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ اگر ان منصبوں سے کوئی مستفید ہورہا ہے تو وہ اشرافیہ اور ایک بالادست صوبہ (پنجاب) ہے۔ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے 1952 سے سوئی گیس کی چوری جاری ہے۔ سوئی کی گیس پنجاب سمیت پاکستان کے دیگر شہروں کو فراہم کی جاتی ہے۔ مگر اس نعمت سے بلوچستان آج بھی محروم ہے۔ یہاں تک کہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے بعض علاقوں میں سوئی گیس کی سہولت ہی میسر نہیں ہے۔ لوگ لکڑیوں سے اپنے گھروں کے چولہے جلاتے ہیں۔
حکمرانوں کی چوری یہاں تک نہیں رکتی بلکہ یہ چوری بلوچستان کی پوری ساحلی پٹی پر بھی جاری ہے۔ بلوچستان کے ساحل کو غیرمقامی افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔ گوادر میں ڈیپ سی پورٹ بنائی گئی لیکن اسکے بننے سے مقامی بلوچوں کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہواہے۔ فائدہ ہورہا ہے تو وہ پنجاب سے آنے والے لوگوں کو ہورہا ہے۔ یہاں ایک انٹرنیشنل ایئر پورٹ بنانے کا منصوبہ بھی ہے۔
ایئرپورٹ ضرور بنائی جائے مگر گوادر کے عوام کی ضروریات کچھ اور ہیں۔ گوادر کو بین الاقوامی معیار کے ایئرپورٹ کے بجائے اسپتال کی ضرورت ہے۔ گوادر کے لوگ علاج معالجے کے لئے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ اسی طرح گوادر کو بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی کی ضرورت ہے۔
ضلع گوادر کے عوام کا معاش ماہی گیری پر منحصر ہے۔ بلوچ صدیوں سے سمندر میں ماہی گیری کرتا آرہا ہے۔ لیکن آج بلوچستان کی ساحلی پٹی کو غیرمقامی ٹرالر مافیا کے حوالے کردیا گیا ہے جنہوں نے اس سمندر کو بانجھ کردیا ہے۔ سمندر میں مچھلی اور جھینگوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ، ماہی گیر نانِ شبینہ کے بھی محتاج ہوگئے ہیں۔ سرکار کی غلط پالیسیوں سے بلوچوں کا یہ معاش بھی چھین لیا گیا ہے۔
ایسا کب تک چلتا رہے گا؟۔۔۔ اس سرزمین کے اصل مالک (بلوچ) اپنی سرزمین پر بیگانگی کے شکار رہیں گے۔ یہ دوہری پالیساں ختم اور مساوی بنیادوں پر بات چیت شروع کی جائے و گرنہ بات کہیں دور نکل جائیگی۔
سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے بلوچوں نے ‘‘گولڈ سمتھ لائن’’ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دونوں اطراف میں ایک ہی خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ وہ آپس میں تجارت کرتے ہیں اور یہ تجارت تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے آئینی وقانونی ہے۔ بلوچوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ دو طرفہ تجارت کو تسلیم کیا جائے۔ ایک پالیسی مرتب کی جائے تاکہ یہ تجارت ایک میکانزم کے تحت فروغ پا سکے۔
بلوچ کا معاشی قتل
وقتِ اشاعت : September 10 – 2023