ملک میں نوجوان نسل تیزی کے ساتھ منشیات جیسی لعنت کی طرف بڑھ رہی ہے مختلف منشیات کے استعمال سے نہ صرف مستقبل کے معمار بلکہ ان کا پورا خاندان بھی متاثر ہورہاہے۔ تعلیمی اداروں میں تو بہت زیادہ منشیات کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جبکہ عام طور پر گلی محلوں میں نوجوان نشہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مخصوص اڈے نشے کے باقاعدہ بنے ہوئے ہیں جہاں نوجوان جاکر نشہ کرتے ہیں اگر کسی بھی معاشرے میں نشہ نوجوان نسل تیزی سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج مرتب ہوتے ہیں کیونکہ نشے کی لعنت میں پڑھنے کے بعد وہ منفی سرگرمیاں بھی شروع کردیتا ہے
جرائم جیسے سنگین واردات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ گھرانے مکمل تباہ ہوجاتے ہیں فقط خاندان کے ایک فرد کی وجہ سے سب کی زندگی عذاب بن جاتی ہے نوجوان نسل کو منشیات جیسی لعنت سے بچاؤ کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرور ت ہے جس کا آغاز بلوچستان سے کیا گیا ہے جو انتہائی خوش آئند عمل ہے اور خود اس میں معاشرے کے معتبرین کردار ادا کررہے ہیں جوقابل تحسین ہے۔ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں منشیات کی پیداوار اور منشیات فیکٹریوں کے خاتمے کیلئے آپریشن شروع کردیاگیا ہے۔
پاک فوج، ایف سی بلوچستان،اینٹی نارکوٹکس فورس، لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔آپریشن میں اب تک 2000 کلوگرام منشیات برآمد کی گئی، 3000 کلوگرام کیمیکل/کروڈ ایفیڈرین کو تلف کیا گیا۔16 نارکوٹکس مینوفیکچرنگ پراسیسنگ مشینیں تباہ کردی گئیں، 18 منشیات کے کمپاؤنڈز کو مسمار کیا گیا، 10 ایکڑ پر منشیات کی کاشت کو بھی ختم کر دیا گیا۔اس کے علاوہ آپریشن کے دوران 4 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔30اگست کو قلعہ عبداللہ انسداد منشیات مہم کے تحت ایک جرگے کا انعقاد بھی کیا گیا۔
جرگے میں مقامی عمائدین نے قلعہ عبداللہ اور گلستان میں منشیات فیکٹریوں کے خاتمے اور منشیات کی پیداوار کو روکنے کا مطالبہ کیا اور سیکورٹی اداروں کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے یہ آپریشن بلوچستان بالخصوص تعلیمی اداروں کو منشیات کی لعنت سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا جارہا ہے ۔بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں بھی منشیات کی پیداوار اور فیکٹریاں موجود ہیں ان کا بھی قلع قمع کرنا ضروری ہے مگر اس کے لیے معاشرے کے ہرفرد کو اپناکردار ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے نجات کا مقصد نوجوان نسل کو تباہی سے بچانا ہے نوجوان مستقبل کے معمار ہیں جن کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف گامزن کرنا ضروری ہے اور اس میں حکومت بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالے بعض این جی اوز بھی منشیات کے خلاف کام کررہی ہیں جبکہ نشئی افراد کی بحالی کے سینٹرز بھی قائم کئے گئے ہیں
مگر علاج کی رقم زیادہ ہونے کی وجہ سے غریب افراد اپنے بچوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں اس میں سینٹرز کے ذمہ داران بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رعایت کریں تاکہ متاثرہ خاندان کے بچوں کو منشیات جیسی لعنت سے نجات مل سکے۔ امید ہے کہ منشیات کے خاتمے کے لیے اسی طرح مشترکہ کوششیں جاری رہینگی اور ملک سے منشیات کا خاتمہ یقینی ہوگا اور نوجوانوں کے بہترین اور شاندار مستقبل کی راہ ہموارہوگی۔