کوئٹہ ; بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جناب جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس جناب جسٹس اقبال احمد کاسی پر مشتمل بینچ نے گیس پریشر کی کمی ،لوڈشیڈنگ اور دیگر سے متعلق دائر آئینی درخواست کی گزشتہ روز سماعت کی ۔
سما عت کے دوران سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے اسحاق ناصر ایڈووکیٹ ، اوگرا کی جانب سے رضوان الحق ایڈووکیٹ اور شاہ محمد ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شوکت علی رخشانی پیش ہو ئے بلکہ صارفین بھی عدالت میں مو جو د تھے ۔
سماعت شروع ہوئی تودرخواست گزار سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے اعتراض اٹھایا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے پہلے ما ہ اگست اور اب ما ہ ستمبر میں بھیجے گئے بلوں میں اسٹینڈرڈ اور فکسڈ چارجز کے نا م سے نئے چا رجز شامل کئے گئے ہیں۔
حالانکہ عدالت عالیہ کی جانب سے ایسے کسی بھی اقدام سے کمپنی کو منع کیا گیا تھا ، متعلقہ حکام سے پوچھا جائے کہ آخر ایسا کیوں کیا جارہا ہے ؟ بنچ کے ججز کے استفسار پر گیس کمپنی کی جانب سے بینچ کو بتایا گیاکہ بلوں میں نئے چارجز اوگرا اور وفاقی حکومت کی ہدایت پر شامل کی گئی ہیں۔
جن صارفین کی گیس بلوں سے متعلق شکایت تھی ان کی شکایات دور کی گئی ہیں مزید شکایات کا بھی ازالہ کیا جا رہا ہے ۔دوران سماعت جسٹس اقبال کاسی نے استفسار کیا کہ گیس چوروں اور ڈائریکٹ کنکشن لگانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے اور کتنے افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔
بتایا جائے اس بابت کوئی کمپلین( شکایت) بھی کی گئی ہے یا نہیں ؟ گیس چوری کرنے میں ملوث صارفین کے خلاف ایکشن لیا جائے اور ان کے کنکشنز منقطع کئے جا ئیں پو رے علا قے کی سپلا ئی بند نہ کی جا ئے جو صارف بل کی ادائیگی نہیں کرتا وہ گیس سپلائی کا حقدار نہیں ،گیس چو روں کا بوجھ دوسرے صارفین پر نہ ڈالا جائے ۔
جسٹس محمد کا مران ملاخیل نے ہدا یت کی کہ سیکرٹری پٹرولیم ، چیئرمین اوگرا اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر اگلی سماعت پر گھریلو اور صنعتی صارفین سے متعلق مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کرے ،بتا یا جا ئے کہ صنعتی صارفین کو تو فکسڈ ریٹ پر گیس کی فراہمی کی جاری ہے جبکہ عام صارفین کو فکس چا رجز کی سہولت میسر نہیں ،ناقص پا لیسیوں کی وجہ سے عام صارف نظر انداز ہے۔ بعد ازاں آ ئینی درخواست کی سما عت 17اکتوبر تک کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔