کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹرصغیر احمد نے ایم کیو ایم چھوڑ کرسابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت میں شمولیت اور اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 117سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے ۔ڈاکٹرصغیر احمد نے کہا ہے کہ ہم نے خدا کو بھلا کر ایک شخص کو خدا کا درجہ دیا ہوا تھا۔اپنے ماں باپ اور فیملی سب کو داؤ پر لگایا اتنی خدمت اور سروس خدا کیلئے کرتے تو نہ جانے کس مقام پر ہوتے۔ زیادتیاں دیکھ کر میرا اب مزید خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔اس جماعت میں کوئی پیراشوٹ سے اتر کر آتا ہے تواس کے پاؤں دھو دھو کر پئیے جاتے ہیں جبکہ کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔اردو بولنے والے ملک دشمن نہیں ہیں۔ آج تمہاری وجہ سے مہاجروں کو ملک دشمن اور ’’را‘‘ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ اردو بولنے والوں کی حب الوطنی مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ارباب اقتدار اور سنجیدہ حلقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ مہاجر کمیونٹی کو واپس قومی دھارے میں لایا جائے۔مہاجر صوبے کی سیاست یا مہاجر کارڈ قوم کیلئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔اتنے لوگ اس کارواں کا حصہ بنیں گے کہ گالیاں اور پریس کانفرنسیں بھی کم پڑجائیں گی۔’’وطن کے اداس لوگو اپنے آپ کو سنبھالو ،خود کو کمتر مت سمجھو جو قوم حق بات پر یکجا ہوتی ہے اس قوم کا حاکم ہی فقط اس کی سزا ہے‘‘ ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو ڈیفنس میں ایم کیو ایم چھوڑنے والے رہنماؤں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ پاکستان پوری دنیا میں مثبت پیغام اجاگر کرنے کیلئے آیا ہوں ۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کردار ادا کرنا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ دنیا کا مضبوط ترین ملک بن سکے ۔ ملک دشمن قوتوں کے عزائم ناکام ہو سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ترقی کرے گا تو سندھ اور پاکستان ترقی کریں گے ۔ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں ۔ کراچی کے گلی محلوں میں ظلم ہوتے دیکھ رہا تھا ۔ آج میری سوچ تبدیل ہو چکی ہے ۔ مثبت سوچ کے تحت قدم اٹھایا ہے اور پہل کی ہے ۔ میرا ان دونوں رہنماؤں سے پہلے کبھی کوئی رابطہ یا تعلق نہیں تھا ۔ ایم کیو ایم میں لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن کسی سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جاتا ۔ میں سنتا تھا کہ مصطفی کمال اورانیس قائم خانی اسلام آباد میں ہیں یا ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں یا وہ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں ۔ ان معاملات میں راتوں کو لوگوں کو بلایا جاتا ہے ۔ کچھ دن گزر جاتے تھے لیکن پھر کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ میں بحیثیت پاکستانی سندھ کا باسی اور کراچی کا باشندہ ہوں ۔ اردو کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پتہ کیوں ایم کیو ایم میں دو افراد کو لے کر اتنی گھبراہٹ اور خوف کیوں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست کرنی ہے تو ملک کے لیے سیاست کرنی چاہئے لیکن یہاں سیاست ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے کی جاتی ہے ۔ 6 مئی 2014 کو جو واقعہ ہوا ، اس میں سیاست کہاں تھی ۔ سیاست خدمت کے لیے کی جاتی ہے ۔ 2005 سے 2008 تک ایم کیو ایم میں رول ماڈل سیاست تھی لیکن بعد میں اقتدار سے چمٹا رہنا سیاست کا محور بنا لیا ۔ اپنی عزت کا سودا کیا گیا ۔ کبھی زیادہ قیمت پر اور کبھی کم قیمت پر ۔ میں بھی اسی نظام کا حصہ رہا ہوں ۔ تمام حالات دیکھتا رہا لیکن خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا لیکن اب میں نے اس سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ آج باضمیر لوگوں کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں ۔ مزید باضمیر لوگ ہمارا حصہ بنیں گے ۔ کوئی ڈر اور خوف کی بات نہیں ہے ۔ نہ ہی کوئی وفاداری تبدیل کرانے آئے گا ۔ نہ ہی دفاتر پر قبضہ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ خوفزدہ ہونے والے بتائیں کہ کیا ان کے دفاتر پر قبضہ کیا گیا یا الطاف حسین کی تصویر پر سیاہی ملی گئی یا الطاف حسین کی تصویر پر جوتوں کا ہار ڈالا گیا ۔ 19 جون 1992ء کے حالات خود دیکھے ہیں۔ جمعہ کا دن تھا ۔ ٹرک بھر کر آیا اور وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے ۔ ہمارے ساتھ اتنے لوگ شامل ہوں گے کہ گالیاں اور پریس کانفرنس کم پڑ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ضمیر مطمئن ہے ۔ پہلے گالیاں دی جاتی ہیں پھر لوگ معافیاں مانگتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مجھے وزیر اور مصطفی کمال کو سٹی ناظم بنایا گیا۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں کس نے بنایا ہے۔ تمہیں بھی اس خدا نے بنایا ہے، جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ تم کو قوم نے مینڈیٹ دیا ہے لیکن اس مینڈیٹ کے بدلے تم نے قوم کو کیا دیا۔ موت کے انجیکشن ، نشے میں دھت ہو کر تقریریں کرنا۔ مرد اور عورت کے ملاپ کی باتیں کرنا۔ کیا کوئی باضمیر شخص اپنی بہن بیٹیوں کے ساتھ یہ بات سن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا سب کچھ اس جماعت کیلئے وقف کر دیا۔ ماں باپ کے جنازے چھوڑے دیئے۔ رشتہ داروں سے تعلق ختم کر دیا لیکن بدلے میں ہمیں کیا ملا۔ کیا ہم نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ را‘‘ کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ، وہ سب کو پتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تمہاری وجہ سے مہاجروں کو ملک دشمن اور ’’ را‘‘ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کا ایک ایک کارکن پاکستان دشمن نہیں، سب محب وطن ہیں۔ ارباب اقتدار اور سنجیدہ حلقوں سے درخوست کرتا ہوں کہ وہ مہاجر قوم کو قومی دھارے میں لائیں۔ انہوں نے کہا کہ تہماری وجہ سے مہاجر قوم کی حب الوطنی مذاق بن گئی ہے ۔ کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان کے گھر والے لاشیں اٹھا رہے ہیں لیکن تمہیں ہوش نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے واسطے کارکنوں پر رحم کرو ، کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا چھوڑ دو ۔ کارکنوں کا کام کیا صرف جھنڈے لگانا یا بیریئر کھولنا ہی رہ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس کے گھر سے جنازے اٹھتے ہیں ، یہ انہیں پتہ ہوتا ہے ۔ کارکن کام دھندے پر تو جاتے نہیں تھے ان کا کام خدمت گار کی حیثیت سے تھا اور جب حالات تبدیل ہوئے تو کہا کہ نوکریوں پر جاؤ اور پھر ان کی گرفتاریاں ہوئیں ۔ کیا تمہیں لوگوں نے ووٹ اور مینڈیٹ اس لیے دیا تھا کہ تم لوگوں کو خدمت گار بناؤ ۔ انہوں نے کہا کہ اگست کے حالات کو کوئی بھول نہیں سکتا ۔ لوگوں کو بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر اتارا گیا ۔ بد فعلیاں کی گئیں ۔ اس کی ویڈیو بنائی گئیں ۔ لوگوں نے ایک ہی دن میں 30 سے 35 لاشیں اٹھائیں ۔ کہا جاتا تھا کہ جنازے لے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس جاؤ اور احتجاج کرو ۔ جب احتجاج کیا جاتا تو پھر اچانک احتجاج ختم ہو جاتا اور پتہ ہی نہیں لگتا کہ سودا کس قیمت پر ہو گیا ۔ را کے ساتھ تعلقات کے بارے میں دنیا جانتی ہے ۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور حکومتی اداروں کو بھی پتہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم میں اگر کوئی کارکن کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ ڈر کے مارے کچھ نہیں کہتا ۔ آج تعلیم ہمارا زیور نہیں رہی ہے ۔نچلے طبقے میں کارکنان پڑھے لکھے نہیں ہیں ۔ لوگوں نے اپنی جانیں تمہارے لیے وقف کر دی ہیں ۔ شہداء اور اسیروں کے اہل خانہ کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ لوگ جب وہاں جاتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں تو انہیں دھکے مار کر نکال دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ اربوں روپے کیوں لیتے ہو ، سمجھ نہیں آتا ۔ 5 دسمبر آیا تو کہا کہ مہاجر صوبے کی تحریک چلے گی کیونکہ مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔