ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی ابتر صورتحال نے عوام کو عذاب میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے، عوام معاشی طور پر بہت زیادہ متاثر ہوکر رہ گئے ہیں، اخراجات پورے نہیں ہورہے، گھر کا چولہا ٹھنڈاپڑ گیاہے، روز مرہ کی اشیاء خریدنے کی سکت ختم ہوگئی ہے۔
ملازم ہو یا دیہاڑی دار طبقہ اپنی ضروریات تک پورے نہیں کرپارہے ، گھریلو اخراجات کے ساتھ بچوں کی اسکول کی فیسیں، وین کی فیسیں، کتابوں کے اخراجات یہ سب اب ایک شہری کے لیے پورا کرنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے مگر اس کا حل یہ نہیں ہے کہ عام انتخابات کے دوران شہری اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کریں کیونکہ اس بنیاد پر آپ اپنے حقوق لینے کی مزاحمت سے دور بھاگ رہے ہیں۔
پھر یہ خلاء آپ کے اپنے حلقے میں وہی شخصیات پُر کرینگی جو دہائیوں سے آپ پر مسلط ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اچھی شخصیات بھی موجود ہیں اور کرپٹ عناصر بھی، اور لوگ ان سے آگاہ بھی ہیں کیونکہ وہ اپنے حلقے کی شخصیات کو قریب سے جانتے ہیں ۔اگر عوام ملک کے اندر تبدیلی سمیت مسائل کا حل چاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں
۔اس کے لیے اپنے موزوں امیدوار کو ووٹ کاسٹ کریں مگر ووٹ کو ضائع نہ کریں لوگ اپنے اندر خود ایک طاقت رکھتے ہیں اوروہ طاقت ووٹ کی ہے۔ عوام موجودہ معاشی بحران کا مقابلہ جس طرح کررہی ہے اسی طرح سیاسی حوالے سے بھی خود کو ہمہ وقت تیار رکھیں، سیاست کا حصہ بنیں ،اپنے درمیان موجود اچھے کردار کی حامل شخصیات کو عام انتخابات میں بیشک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا کریں ۔
اور انہیںووٹ دیں، اگر کوئی سیاسی جماعت آپ کے حلقے میں بااعتماد شخصیات کو ٹکٹ دے رہی ہے تو اسے ووٹ ڈالیں کیونکہ آپ اس سے اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے پوچھ گچھ بھی کرسکتے ہیں اپنا روائیدبھی بیان کرسکتے ہیں اوروہ شخص اپنی کارکردگی کے ذریعے آپ کے سامنے نتائج دے گا جو آپ کو نظر بھی آئے گا۔ معاشی مسائل کا حل صرف ایک شخص کے پاس نہیںہوتا بلکہ پوراایک ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے جو ملکی معیشت کی سمت کا تعین کرتا ہے اور پھر ریاست اس پر عملدرآمد کرتی ہے جس کے نتائج نکلتے ہیں۔۔
بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے معیشت پر تجربات کئے گئے جن کے نتائج بحرانات کی صورت میں سامنے آئے ۔
جس کی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف سمیت دیگراداروںاور ممالک سے قرضوںپر انحصار کرنا ہے ۔اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ٹیکس نیٹ میں بڑے مافیازکو لانا پڑتا ہے جو کہ نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے زیادہ بوجھ عوام پرپڑا۔ ایک بدنصیبی یہ بھی ہے کہ ملکی اداروں کے حکام، آفیسران سمیت اسمبلی ارکان کو مفت پیٹرول، مفت بجلی سمیت دیگر مراعات دی جاتی ہیں ۔
جس کا بوجھ ٹیکس کی صورت میں عوام پر ڈالاجاتا ہے جس سے غریب عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ بہرحال عوام اپنے اندر ایک بہت بڑی طاقت رکھتے ہیں اگر وہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے میدان میں نکلے تو کوئی ان کامقابلہ نہیں کرسکتا۔
سیاسی جماعتیں بھی عوام کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اپنا غصہ عام انتخابات کے دوران ووٹ نہ دینے پر نہ نکالیں بلکہ بڑھ چڑھ کر عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے موزوں امیدوار کو ووٹ دیکر منہ توڑ جواب دیں اس کا بڑا اثر پڑتا ہے جس سے سیاسی جماعتوں کو بھی اندازہ ہوگا کہ ایک عام آدمی سیاسی شعور کی بنیاد پر اب بڑی تبدیلی چاہتا ہے اور اس کے لیے بہترین موقع یہ حق رائے دہی کاہے جو آپ کے پاس ہے۔