|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2023

بلوچستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں مگر قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی سے صوبے کے غریب عوام بہت زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں، آواران زلزلہ ہو، قحط سالی یا پھر سیلاب ، ان آفات سے لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوگیا مگر افسوس اس کا مکمل ازالہ آج تک نہیں ہوسکا۔

آواران زلزلہ متاثرین کو گھروں کی تعمیر کے لیے معاوضہ آج تک مکمل طور پر ادا نہیں کیا گیا ،آواران کے باشندے آئے روز کسی نہ کسی فورم پر اس مسئلے کو اٹھاتے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی اس کے باوجود کہ دو بار آواران سے ہی تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیت میرعبدالقدوس بزنجو صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے مگراپنے علاقے کے اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے

، آواران میں لوگ آج بھی کچے مکانات میں رہنے پر مجبور ہیں اگر خدانخواستہ پھر کوئی آفت آگئی تو یہ چھت بھی ان کے سر سے چھن جائے گی۔ بارش ہونے کے باوجود بلوچستان میں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں مختلف ڈیموں کے منصوبے بلوچستان کی بجٹ میں شامل کئے گئے لیکن ان کی عدم تعمیر سے بلوچستان میں پانی ناپید ہے

آج بھی کوئٹہ سمیت بڑے شہروں میں لوگ پانی خریدنے پرمجبور ہیں جبکہ دیہاتوں میں جانور اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیںجس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں وبائی امراض عام ہیں لیکن یہ رپورٹ نہیں ہوتیں کیونکہ دوردراز علاقوں تک رسائی آسان نہیں۔

دوسری بڑی وجہ مقامی حکومتوں کی غیر فعالیت بھی ہے اور اس کی وجہ صوبائی حکومتیں رہی ہیں جنہوں نے مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات کبھی نہیں دیئے

کیونکہ سیاسی مفادات آڑے آجاتی ہیں اگر سب کام مقامی حکومتیں کرینگی تو مقامی ایم پی ایز اور ایم این ایز کو اپنے ووٹ بینک کا خطرہ رہتا ہے نیز اپنے منظور نظر افراد کو نوازنے سے بھی رہ جاتے ہیں ۔

گزشتہ برس بلوچستان میں سیلاب نے تو سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا ،آج بھی لوگ بغیر چھت اور بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے متاثرین کو گھر بناکر دیئے گئے یعنی جتنا ممکن ہوسکا اتنے اقدامات پیپلزپارٹی کی حکومت نے اٹھائے مگر بلوچستان حکومت کی جانب سے متاثرین کی بحالی کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔

سابق وزیراعظم میاںمحمدشہباز شریف نے متعدد دورے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کئے اور جلد بحالی کی یقین دہانی کرائی مگرزمینی حقائق یہ ہیں کہ لوگ آج بھی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں، جذبات میں آکر حکمران وعدے تو کرتے ہیں مگر انہیں عملی جامہ نہیں پہناتے، بلوچستان تو ویسے بھی کبھی وفاقی حکومتوں کی ترجیحات میں نہیں رہی

اگر بلوچستان کی ترقی وفاق کے لیے اہمیت رکھتی تو بلوچستان میںجاری منصوبوں کے محاصل سے ہی اس کی ترقی کو ممکن بناتے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان کواس کاجائز حق تک نہیںملتا ۔ گیس بلوچستان سے نکلتی ہے مگریہ اہل بلوچستان کو دستیاب نہیں۔جن چند علاقوں میںگیس حاکمان بالا کی مہربانی سے دستیاب ہے، سردی کی آمد کے ساتھ ہی وہاں سے بھی مکمل طور پر غائب ہوجاتی ہے۔

شدید سردی کے دوران سیلاب سمیت زلزلہ متاثرین کس طرح اپنی زندگی گزارینگے اس بے حسی کا جواب ہمیشہ تلاش کیاجاتا ہے ۔ بہرحال بلوچستان کو جس طرح سے نظرانداز کیا گیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی دیگرصوبوں نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرکے عوام کو بہترین سہولیات فراہم کی ہیں ہمارے یہاں اب تک متاثرین کی بحالی تک نہیں ہوئی ہے تو دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور اس سے مستفیدہونا ایک خواب ہی ہے۔