کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سابق رکن وسیم آفتاب اورکراچی کے حلقہ پی ایس 106سے رکن سندھ اسمبلی محمد افتخار عالم نے ایم کیو ایم چھوڑ کر مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے ۔جبکہ ایم پی اے محمد افتخار عالم نے اپنی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے ۔وسیم آفتاب نے کہا ہے کہ ۔جس شخص کی ہم نے پوجا کی، جس کے نام پر لوگوں نے جانیں دیں ،جس شخص کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں مول لیں وہی شخص ان کی لنکا ڈھانے میں آگے آگے ہے ۔خرابی ہماری صفوں میں نہیں بلکہ وہاں ہے جہاں سے چشمہ بہہ رہا ہے ۔کارکنوں کو اس جنگ میں ڈال دیا گیا ہے جو ان کی نہیں ہے ۔یہ ’’را‘‘ کے ایجنٹ نہیں بلکہ ان کا سودا کردیا گیا ہے ۔اس کا انہیں پتہ ہی نہیں ہے ۔ہم ’’را‘‘ کو سپورٹ کرنے والے نہیں بلکہ محب وطن ہیں ۔بہکے ہوئے لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ جن لوگوں کے لیے وہ جدوجہد کررہے ہیں ان کے عزائم کیا ہیں ۔ریاست پاکستان ان لوگوں کو گلے لگائے اور ان کا ہاتھ تھامے ۔ہم کراچی کو خون ریزی سے بچانے آئے ہیں ۔آج کے دور میں حضرت امام حسینؓ کا غم منانا اور ماتم کرنا آسان ہے لیکن یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔اس شخص کے ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کی بات سچ ہے لیکن لندن میں مقدمہ نہیں چلے گا اور نہ ہی یہ ثابت ہوسکے گا کہ اس کے دشمن ملک سے رابطے ہیں ۔ایم پی اے افتخار عالم نے کہا کہ ہم جب تحریک میں آئے تو ہمارا نعرہ ’’منزل قریب ہے‘‘ تھا اور اس کے بعد نعرہ تبدیل ہو کر ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ ہوگیا ۔اب بتایا جائے کہ آخرہماری منزل کیا ہے ۔الطاف حسین انا پرست شخص ہیں ،وہ فیصلے اپنی تسکین کے لیے کرتے ہیں ۔ اسیروں اور شہداء کے خاندان آج بے یار و مدد گار ہیں ۔مصطفی کمال نے کہا کہ ہماری منزل ضمنی انتخابات نہیں بلکہ تنظیم سازی ہے ۔انیس قائم خانی نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ڈیفنس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وسیم آفتا ب نے کہا کہ 1987سے ایم کیو ایم سے وابستہ رہا ہوں ۔وہ قوم جس کی تہذیب اور تمدن کی شناخت علم کے نام سے تھی آج اس قوم کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔ایم کیو ایم کا کارکن آج جس جگہ کھڑا ہے وہ مایوسی کا شکار ہے ۔15ہزار لوگ زمین کے اندر چلے گئے ۔ہزاروں مائیں اپنے بیٹوں سے محروم اور بیویاں بیوہ ہوگئیں ۔ہزاروں لوگ جلاوطن ہوئے ۔ہزاروں اسیر ہیں ۔اس قوم کی شناخت ،غالب ،درد اور دامن کے نام سے ہوتھی تھی اور آج اس کے نام سے کیا کیا نہیں لگ رہا ۔اس شہر کے لوگ محنت کرکے اپنا مقام حاصل کرتے تھے آج ان کی شناخت کیا رہ گئی ہے ۔ایم کیو ایم میں یہ سوچ کر آئے تھے کہ لوگوں کے مسائل حل کریں گے ۔رابطہ کمیٹی کا ممبر بنا تو بہت ساری چیزوں سے آگاہی ہوئی ۔خرابی ہماری صفوں میں نہیں خرابی اس چشمے میں ہے جو جہاں سے بہہ رہا ہے ۔جس شخص کی ہم نے پوجا کی، جس کے نام پر لوگوں نے جانیں دیں ،جس شخص کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں مول لیں لیکن قوم کو پتہ ہی نہیں وہی شخص ان کی لنکا ڈھانے میں آگے آگے ہے ۔2012تک ہم لوگوں کے مسائل حل کرسکتے تھے ۔پیپلزپارٹی کے ساتھ ہمارا اتحاد لیکن ہم نہ ان کے دوست بن سکے اور نہ ہی دشمن ۔جب بھی پیپلزپارٹی پر کمزور موقع آتا تو ہم حکومت سے نکل جاتے ۔مسلم لیگ (ق) جو کہیں نہیں تھی ان کو نائب وزیر اعظم اور اہم وزارتیں ملیں اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور ہم خالی ہاتھ حکومت میں آجاتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں حضرت امام حسینؓ کا غم منانا اور ماتم کرنا آسان ہے لیکن یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔