سائفر حساس نوعیت کا معاملہ ہے ۔
یقینا کسی بھی ملک کے سفارتی حساس نوعیت کے معاملات پر کوئی بھی ذمہ دارکھل کر بات نہیں کرتی ۔سائفر ایک کوڈ کے ذریعے دوسرے ملک کو دیا جاتا ہے جس میں مختلف مسائل بتائے جاتے ہیں۔
جبکہ اپنے ملکی تعلقات کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کابھی اظہار کیا جاتا ہے پھر سفارتخانے کے ذریعے دفتر خارجہ کو یہ موصول ہوتا ہے جس کے بعد اسے ذمہ داران تک پہنچایاجاتا ہے جس میں عسکری قیادت بھی شامل ہوتی ہے تاکہ ان کے علم میں تمام مسائل لائے جائیں اور تعلقات میں خرابی یا بہتری کے حوالے سے پالیسی بنائی جاسکے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے سائفر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ایک جلسے کے دوران سائفر کا پورا متن پڑھ کر سنایا کہ امریکہ ایک سازش کے ذریعے اسے ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔
اور اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اسلام آباد کے عوامی اجتماع میں یہ بات کہی کہ وزیراعظم صاحب یہ آپ کی امانت ہے اب یہ آپ کے حوالے کردیا ہے آپ جانے اور عوام جانے ۔سائفر پرآڈیولیکس بھی سامنے آئی جبکہ غیرملکی ذرائع ابلاغ میں اس کا متن بھی شائع ہوا۔
تو اب کیسے کہاجاسکتا ہے کہ اس کیس کا اوپن ٹرائل اور براہ راست کیس کو نشر نہ کیاجائے یعنی اب اس کی کیا منطق بنتی ہے ،پوری دنیا سائفر کے متن اور اس کے حقائق سے آگاہ ہوچکی ہے ،لہذا اب اوپن ٹرائل کے ذریعے براہ راست اس کی سماعت نشر ہونی چاہئے۔
تاکہ عوام بھی دیکھ سکیں کہ سائفر میں پی ٹی آئی اپنا دفاع کیسے کرے گی اور ان کے وکلاء کیا دلائل دینگے ،تبھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بہرحال گزشتہ روز ہائی کورٹ نے عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر ان کیمرا کارروائی کی درخواست نمٹادی۔وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ سائفر کیس ٹرائل کورٹ میں ان کیمرا چل رہا ہے اس لیے ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست پر بھی ان کیمرا کارروائی کی جائے کیونکہ اس حوالے سے حساس معلومات ہیں اور عدالت کے سامنے ایسی معلومات، دستاویزات رکھنی ہیں جنہیں پبلک نہیں کیا جاسکتا ۔
اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے کی درخواست پر فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر ان کیمرا کارروائی کی درخوست نمٹادی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ سائفرکیس میں درخواست ضمانت کی سماعت 9 اکتوبرکو اوپن کورٹ میں ہوگی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے۔
کہ وکلاء جن معلومات یا دستاویزات کے حساس ہونے کی نشاندہی کریں گے اس پردلائل ان کیمراسنے جائیں گے۔اب 9اکتوبر کو اوپن کورٹ میں کیس کی سماعت تو ہوگی مگر اس کیس کو براہ راست نشر نہ کرنے کا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے جنہوں نے سائفر کے ساتھ کھلواڑ کیا اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچاکر عوام کو گمراہ کیا انہیں بے نقاب کرنے کا یہی وقت ہے ۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھے گی اور براہ راست کیس کی سماعت دکھائے گی تاکہ سائفر کی حقیقت سامنے آسکے اور سازشیں کرنے والے جو انارکی پیدا کرنا چاہتے تھے ان سے عوام آگاہ ہوسکیں۔