|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2023

ملک میں جاری مہنگائی کی لہر میں کمی آنے کے امکانات فی الحال دکھائی نہیں دے رہے باوجود اس کے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کردی گئیں۔

مگر چیزوں کی قیمتیں مزید بڑھ رہی ہیں اس کی ایک وجہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی غیرفعالیت اور ضلعی سطح پر انتظامیہ کی غفلت بھی ہے جو سرکاری نرخنامے پر عملدرآمد کرانے میں ناکام دکھائی دے ر ہے ہیں۔معاشی حالات انتہائی دگرگوںہیںنگراں حکومت کی جانب سے فوری ریلیف کا ملنا مشکل ہے کیونکہ جو اعدادوشمار رپورٹ ہورہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح بڑھ کر37.07 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے، ایک ہفتے میں 19اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، چینی کی اوسطاً قیمت میں ایک روپے فی کلو اضافہ ہوا۔

وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے اعدادوشمار جاری کردیئے، جس کے تحت ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 0.11 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں 11 روپے اور اسی طرح آلو، پیاز، انڈے، دودھ سمیت 19 اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر98 روپے مہنگا ہونے کے بعد نئی قیمت 3232 روپے ہو گئی ہے، جلانے کی لکڑی، تازہ دودھ، دہی، مٹن اور خشک دودھ کے دام بھی بڑھ گئے ہیں۔

اسی طرح 16اشیاء کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی جس کے تحت پٹرولیم مصنوعات، چکن، دال مسور، دال چنا، دال ماش، آٹا، سرسوں کا تیل اور گھی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔دوسری جانب عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجٹ خسارہ رواں اور آئندہ مالی سال بلند سطح پر رہے گا جس کی وجہ سے عوام کو رواں مالی سال مہنگائی میں بڑا ریلیف نہیں مل سکتا۔

عالمی بینک کے مطابق 2023 میں پاکستان میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 29.2 فیصد رہی ہے جو 2024 میں 26.5 فیصد رہے گی اور توقع ہے کہ 2025 میں پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 17 فیصد پر آجائے گی۔عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ توانائی کے نقصانات میں کمی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے عالمی بینک توانائی اصلاحات کے لیے تعاون جاری رکھے گا۔عالمی بینک کے مطابق رئیل اسٹیٹ شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے لوگوں میں اعتمادکا فقدان ہے۔

جب کہ زرعی شعبے کی گروتھ2.2 فیصد، صنعت1.4 اور سروسز سیکٹر کی گروتھ1.5 فیصد رہ سکتی ہے۔اس کے علاوہ رواں مالی سال مہنگائی 26.5 فیصد،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.4 فیصد، مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.7 فیصد، ڈیٹ ٹو جی ڈی پی 72.4 فیصد رہ سکتا ہے، انرجی مکس منصوبوں سے 5 سے 10 سال میں انرجی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔ پاکستان میں درآمدی فیول پر انحصار کے باعث انرجی پرائسز زیادہ ہیں، انرجی ٹیرف کم رکھاگیا جس کے باعث گردشی قرضے کے مسائل بڑھے، انرجی سیکٹر میں اصلاحات ناگزیر، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔۔

ملک میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے جس کی پابندی لازمی کرنی ہے چونکہ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف ڈیل سے روگردانی کی اور اس کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو رقم دینے سے گریز کیا مگر یہ مسئلے کاحل نہیں ہے۔

جب تک ملکی معیشت اپنی پیداواری صلاحیت اور مستقل معاشی پالیسی پر گامزن نہیں ہوگی قرض لینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ نگراں حکومت عام انتخابات کے بعد چلی جائے گی اس کے بعد نئی حکومت نے بڑے فیصلے لازمی کرنے ہونگے جس کی ترجیحات میں معیشت ہوگی تب جاکر ریلیف کے امکانات پیدا ہوں گے ۔