حماس کے مزاحمت کاروں اور اسرائیلی فورسز کی جھڑپیں تیسرے روز بھی جاری رہیں، اسرائیل پر حماس کے حملوں میں ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرچکی ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے حماس کے حملوں میں 800 سے زائد اسرائیلیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔اسرائیلی وزارت صحت کے مطابق 2200 سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں سے 343 شدید زخمی ہیں اور 22 کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔رپورٹ کے مطابق 130اسرائیلی فوجی اور شہری غزہ میں قید ہیں،
حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں چار اسرائیلی مغوی بھی ہلاک ہوگئے۔آج بھی غزہ سے اسرائیلی شہر ایشکلون پر تقریباً 100 راکٹ داغے گئے جن میں سے کچھ نے ہدف کو نشانہ بنایا۔اسرائیلی فوجی ترجمان نے اعتراف کیا کہ حالات کنٹرول کرنے میں توقع سے زیادہ وقت لگ رہا ہے، حماس کا حملہ امریکا میں ہونے والے نائن الیون کے حملے جیسا تھا۔دوسری جانب اسرائیل میں تل ابیب سمیت مختلف علاقوں میں شہریوں نے خوراک ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے۔ترک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج آئرن ڈوم سسٹم سے لیس کچھ یونٹوں کو گولہ بارود فراہم نہیں کر رہی،
اسرائیلی فوج کے پاس گائیڈڈ اینٹی ائیر کرافٹ میزائل محدود تعداد میں ہیں، اسرائیلی فوج غزہ سے قریب ایشکلون، اشدد اور سدیرات شہروں پر اسی وجہ سے راکٹ حملے روکنے میں ناکام رہی۔ اسرائیل حماس جنگ کے درمیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہواجو مشترکہ بیان کے لیے ضروری اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اجلاس میں امریکہ نے حماس کی سخت مذمت کرنے پر زور دیا لیکن متعدد اراکین نے امریکہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گزشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے اس طویل اور خونی تنازعے کوکئی دہائیاں گزر چکی ہیں .
جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
بہرحال فلسطین پر دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے جبکہ صہیونی قابض کی جانب سے یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کاسلسلہ بھی جاری ہے ۔ اس دیرینہ مسئلہ کو عالمی برادری حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے یورپی ممالک، امریکہ ، بھارت جیسے ممالک اسرائیل کی حمایت کرتے آئے ہیں اس کے باوجود کہ اسرائیل نے زبردستی فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کررکھا ہے.
اور ان پر وحشیانہ بمباری کرتی رہی ہے ،معصوم بچوں ،خواتین سب کو نشانہ بنایا جاتاہے جس کا صرف مقصد ایک ہے اسرائیل غزہ پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے جو عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس حوالے سے فلسطینی حکومتی ذمہ داران متعدد بار تنبیہ کرچکے ہیں کہ اسرائیل کی جارحیت اور قبضہ گیریت کو روکاجائے مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں.
مگر افسوس انسانی حقوق کی دعویدار اقوام متحدہ کے اندر بعض ممالک اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں جبکہ امریکہ نے کھل کر اس جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے کااعلان کیا ہے ،
جنگی بحری بیڑہ دینے کے ساتھ دیگر جنگی سازوسامان فراہم کرنے کی بات کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں تباہ کن جنگ انسانی بحران کا سبب بن سکتا ہے اس جنگ کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل پردباؤ ڈالاجائے، فلسطین پر قبضہ کرنے کی ناجائز کوشش کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے وگرنہ اس جنگ سے مشرق وسطیٰ مستقل بدامنی کی طرف جائے گا ۔