گزشتہ کئی دنوں سے پی ٹی آئی کے رہنماء اچانک بازیاب ہوکر ٹی وی اسکرین پر آرہے ہیں اور یہ بتارہے ہیں کہ 9مئی کے واقعے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا ، پی ٹی آئی کا بیانیہ خود چیئرمین پی ٹی آئی بناتے تھے ہم اس کی مخالفت کرتے تھے مگر چند لوگ ان کے ساتھ بیٹھ کر بیانیہ بناکر پھر اسے سرکولیٹ کرنے کی ہدایت کرتے تھے کہ کس طرح سے محاذ کھولنا ہے اور کس کس پر سوشل میڈیا کے ذریعے ٹرولنگ کرنی ہے، راہ چلتے سیاستدانوں کے عزت نفس کو مجروع کرنا ہے، اداروں کے خلاف ایک منظم طریقے سے پروپیگنڈے کو طول دینا ہے.
بہرحال فہرست لمبی ہے کہ ان کا بیانیہ کیاہوتا تھا اور کس طرح سے یہ لوگ اپنے سوشل میڈیا
کے اکاؤنٹ اور میڈیا کے ذریعے وہ تمام باتیں کرتے تھے جس پر شرمندگی کی بجائے اب ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ عثمان ڈار ، صداقت عباسی ، فرخ حبیب ان تمام افراد کے انٹرویوز کو غور سے سناجائے توسب ایک دوسرے سے مکمل مماثلت رکھتے ہیں کوئی ایسی بات نہیں کہ جو مختلف ہو۔ انٹرویوز میں ایسے معصومانہ انداز میں خود کو پیش کررہے ہیں گویا انہوں نے کوئی ایسا عمل نہیں کیاجس سے انتشار، انارکی پھیلے۔ عثمان ڈار کی ایک احتجاج کے دوران ایک ویڈیو تو بہت زیادہ وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے سر پرپٹی پہنی ہوئی ہے اور لوگوں کو اکساتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آخر دم تک ہم اپنے چیئرمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسی طرح فرخ حبیب کا مکمل سفید جھوٹ سامنے ہے کہ ایک ویڈیو بیان میں وہ لوگوں کو اشتعال دلارہے ہیں کہ چیئرمین گرفتار ہوئے ہیں لوگ گھروں سے باہر نکلیں اور میں بھی احتجاج پر جارہاہوں جبکہ اب اپنے نٹرویو میںیہ بتارہے ہیں
کہ اس روز تو مجھے بخار تھا اور میں گھر میں سورہا تھا تو میری اہلیہ نے مجھے اٹھایا اور بتایا کہ چیئرمین پی ٹ
ی آئی گرفتار ہوگئے ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کو اکساکر گھروں سے باہر نکالا، اب ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں رہی کہ کھل کر معافی مانگیں اور بتائیں کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور وہ غلط سیاسی بیانیہ کے ساتھ چل رہے تھے مگر ایسی ندامت چہرے پر بھی نہیں ہے یہ ان نوجوانوں کے لیے ایک سیاسی سبق ہے جو گمراہ کن پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر ایسے لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں جو حادثاتی طور پر سیاست میں آکر اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اوران کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ۔ اب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی نجی ٹی وی کے پروگرام کے ذریعے چالیس روز کے بعد منظر عام پر آگئے ہیں ۔شیخ رشید کے بھی ویڈیوز اور ٹوئٹ موجود ہیں کہ وہ لوگوں کو بتارہے ہیں کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں لٹیروں کا احتساب کرینگے، جیل میرا سسرال اور ہتھکڑی میرا زیور ہے ۔یہ باتیں 9مئی واقعے کے بعد بھی وہ کہت
ے آئے ہیں اب انہوں نے یہ بتایا ہے کہ 9مئی کے واقعات کے وقت وہ ملک سے باہر تھے اور کہہ رہے ہیں میں نے 9 مئی کے واقعات کی 10 مئی کو مذمت کی۔میری مذمت کو زیادہ سنا نہیں گیا۔9 مئی واقعے میں غیر سیاسی لو
گوں نے اہم کردار ادا کیا، شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے 9 مئی واقعات میں ملوث افراد کیلئے عام معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے جو کچھ ہوا اس کی ہر وقت مذمت کی جانی چاہئے۔شیخ رشید کا کہناتھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہماری لڑائی بنتی ہی نہیں تھی۔سیاستدان کو کسی فوجی کا نام نہیں لینا چاہئے۔ملک اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا،سیاستدانوں اور اداروں کو ملکر چلنا چاہئے۔چیئرمین پی ٹی آئی کو ہمیشہ کہا فوج سے بنا کر رکھنی چاہئے۔قومی سلامتی کی سائفر سے متعلق میٹنگ میں موجود تھا۔3 آدمی چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے فوج سے مذاکرات کر رہے تھے۔تینوں آدمیوں نے اپنی اپنی جماعت بنا لی ہے۔میری بھی کوشش تھی اس میں حصہ ڈالوں۔مجھ سے ایم کیو ایم نے بات کی تو اندازہ ہو گیا تھا ہمارا کام ختم ہوگیا۔چیئرمین پی ٹی آئی ایک ضدی سیاستدان ہیں۔انٹرویو کے آخر میں انہوں نے ٹی وی میزبان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ان
کے گھر آئے اور ان کا انٹرویو کیا۔شیخ رشید نے بھی اپنے گناہ معاف کرانے کے لیے ایک انٹرویو کا اہتمام کیااور اسی میں بھلائی سمجھی جبکہ وہ پریس کانفرنس بھی کرسکتے تھے مگر انٹرویوز کا چلنا نیوز چینل کے لیے بڑی خبر ہے کہ اس نے ایک اور غائب شدہ شخص کو منظر عام پر لے آیا، مارکیٹ میں خبر بن جائے گی جبکہ معافی بھی ہوگی مگر یہ لوگ اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگ رہے اور نہ ہی ان نوجوانوں کے سامنے ندامت کا اظہار کررہے ہیں کہ ہمیںمعاف کردیں کہ ہم نے آپ کو اور آپ کے خاندان کو مصیبت میں ڈالا۔ بہرحال ایک بات واضح ہوگئی کہ پی ٹی آئی جو ڈھٹائی کے ساتھ اپنے بیانیہ اور سیاسی پذیرائی کی بات کرتے نہیں تھکتے ان کے لیڈران کی ہوا نکل چکی ہے۔ اب ملک کے نوجوانوں، خواتین ، بزرگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اور اپنے اہلخانہ کو ایسی جماعت اور بیانیہ سے دور رکھیں جو ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیںجن کا اپناسیاسی کوئی نظریہ نہیں ہوتا، سیاست صرف اپنے مفادات کے لیے کرتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرکے ڈھال بناکر اپنے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔