|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2023

تربت: لاپتہ طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہونے پر تربت میں بساک کے زیرِ اہتمام مظاہرہ، رفیق اومان، ظریف بلوچ سمیت دیگر لاپتگان کے اہل خانہ بھی شریک۔ بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ کیے گئے طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت دیگر نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور عدم بازیابی کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت زون کے زیر اہتمام عطاء شاد ڈگری کالج سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جو شہر کی مختلف گلیوں اور سڑکوں سے ہوتے ہوئے شہید فدا احمد چوک تک پہنچی جہاں مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرہ کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مطالبات درج تھے جبکہ وہ نعرے لگا کر جبری گمشدگیوں کی مذمت اور لاپتہ افراد کا بازیابی کا مطالبہ کرتے رہے۔ مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے بساک کے مقامی رہنماؤں اور لاپتہ رفیق اومان کی بیٹی، ظریف محمد بخش کے بھائی سمیت دیگر لاپتہ افراد کے فیملی ممبران نے کہاکہ جبری گمشدگیاں بین الاقوامی قوانین اور ملکی آئین کے برخلاف ہیں،

مگر بلوچ نوجوانوں کے ساتھ یہ سلسلے آئے روز بڑھتا جا رہا ہے جس پر تمام ملکی ادارے خاموش ہیں۔ انہوں نے اس عمل کو بلوچ نسل کشی قرار دیتے ہوئے اسکی بھرپور مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کو منظرعام پر لاکر انہیں فری ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے جو ان کا آئینی حق ہے۔ مقررین نے کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک سنگین انسانی بحران کی صورت اختیار کرچکی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اس تشویشناک انسانی المیے نے بلوچ معاشرے میں ایک ازیت ناک کیفیت اور غیریقنی ماحول پیدا کیا ہے۔

اس انسانی بحران کی وجہ سے یہاں ہر بلوچ فرد عدم تحفظ کا شکار ہے۔ جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وفاق اور صوبے میں صاحب اختیار افراد اور ادارے اس انسانی المیے کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک طرف بلوچ طلباء￿ کی جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے تو دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے پرامن طلباء کا مختلف طریقوں سے ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کی جارہی ہے جس میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی شامل ہیں۔