|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2023

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے ملک میں 11 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ دے دی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 90 روز میں عام انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے عدالت میں بیان دیا کہ 30 نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل ہو جائیں گی اور انتخابات 11 فروری کو کرائے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا انتخابات کی تاریخ سے متعلق صدر پاکستان آن بورڈ ہیں؟ کیا الیکشن تاریخ سے متعلق صدر سے مشورہ کیا گیا؟

 

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن آج صدر سے مشاورت کرے۔

سماعت کا احوال

اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے خود آئین کی خلاف ورزی کی۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنی استدعا 90 دن میں انتخابات کرانے تک محدود کرلی ہے، آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے سے90 دن میں انتخابات ہونا لازم ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات کی استدعا تو پھر غیر موثر ہو گئی، پچھلی سماعت پر کہہ دیا تھا کہ 90 دن میں اب انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا پی ٹی آئی صرف انتخابات چاہتی ہے، انتخابات کیس سے بنیادی حقوق جڑے ہیں، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہو گی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو الگ چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کیلئے خط لکھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا صدر نے خط میں لکھا کہ عدالت انتخابات کے معاملے کو دیکھے، کیا صدر یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ انتخابات کے معاملے کا نوٹس لے؟

وکیل پی ٹی آئی نے کہا صدر نے خط میں لکھا کہ عدالت بھی جائزہ لے سکتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صدر نے خط میں انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں دی، کیا صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا صدر نے انتخابات سے متعلق مشاورت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اسمبلیاں 9 اگست کو تحلیل ہوئیں تو صدر نے الیکشن کمیشن کو خط 2 ستمبر کو کیوں لکھا، کیا الیکشن کمیشن نے صدر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا کہا؟

وکیل علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن نے تو صدر کو کہا کہ تاریخ دینا آپ کا اختیار نہیں ہمارا ہے، چیف جسٹس نے کہا کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدرنے تاریخ دی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے صدر مملکت کا خط پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اسمبلی 9 اگست کو تحلیل ہوئی اس پر تو کسی کا اعتراض نہیں، صدرنے تاریخ نہیں دی تو کیا ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات اہم معاملہ ہےمگر جس نے تاریخ نہیں دی کیا اس پر توہین عدالت کا نوٹس کریں؟ آپ کے دلائل تو یہ ہیں کہ صدر نے تاریخ نہیں دی تو کارروائی کریں، آپ اسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں ناں جس کے لیڈرکوصدر نے اپنا لیڈر کہا، اپنے لیڈر سے فون پر بات کروا کر صدر سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کروا دیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ سے متعلق خط مبہم ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ صدرنے تاریخ نہ دے کر آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی؟ کیا سپریم کورٹ آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار رکھتی ہے؟ اگر تاریخ صدر نے دینا ہے تو عدالت کیا انہیں ہدایت دے؟ فرض کریں صدر تاریخ کا اعلان نہ کریں تو کیا ہم ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا علی ظفر، آپ کہہ رہے ہیں صدر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن اور صدرانتخابات کی تاریخ دینے کے پابند ہیں، آپ کا کہنا ہے کہ ہرروز تاخیر سے آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے الیکشن ایکٹ کے سیکشن57 کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا اس کا اختیار ہے، کیا آپ نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کو چیلنج کیا ہے؟ صدرنے تاریخ دینا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس کو نوٹیفائی کرنا ہے، الیکشن کمیشن کچھ بھی کہے، علی ظفر آپ کہتے ہیں کہ صدر کو تاریخ دینا چاہیے۔

صدرنے کہاں پر انتخابات کی تاریخ دی یہ بتا دیں؟ جسٹس فائز عیسیٰ کا سوال

وکیل علی ظفر نے کہا کہ تاریخ دینا صدر اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے، جس پر جسٹس امین الدین نے پوچھا اگر الیکشن کمیشن مشاورت کیلئے نہیں بھی آیا تھا تو صدر تاریخ کا اعلان کر دیتے، صدر مملکت نے الیکش کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کیا؟

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کیا صدر نے الیکشن کمیشن کے 24 اگست کے خط کا جواب دیا؟

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا بہتر ہو گا کہ صدر کو انفرادی طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ صدر مملکت کے طور پر دیکھا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا صدر فرد نہیں ادارہ ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ صدرکے مطابق انتخابات کی تاریخ 7 نومبر بنتی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا صدرنے کہاں پر انتخابات کی تاریخ دی یہ بتا دیں؟

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا آئین واضح ہے کہ تاریخ صدرکو دینا تھی، آئین کی خلاف ورزی7 نومبر کو ہو جائے گی، 7 نومبر کو انتخابات نہ ہونے سے ہر دن آئین کی خلاف ورزی شمار ہو گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا صدر کو تو تمام طریقہ کار معلوم تھا، صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے لیکن آپ بتا دیں کہ انہوں نے تاریخ دی کب؟ صدر مملکت کی گنتی درست تھی کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے 89واں دن 6 نومبرہے، صدر مملکت نے تو تاریخ نہ دے کر خود آئین کی خلاف ورزی کی۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا اب ہر شخص آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہر شخص نہیں، آپ بولیں کہ صرف صدر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

علی ظفر کا کہنا تھا وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کیا صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟

چیف جسٹس پاکستان نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا جب صدر نے ہم سے کچھ کہا نہیں تو پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے۔