ملک میں عام انتخابات کی تیاریوں کے ساتھ اب بیان بازی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے،
ہر سیاسی جماعت اپنے ووٹرز کو مصروف رکھنے اور الیکشن میں ماحول کو گرم رکھنے کے لیے سیاسی سرگرمیوں کوجاری رکھے گا اور یہ ایک معمول ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات بھی اس دوران بھرپور انداز میں لگاتی ہیں اور مکمل کوشش ہوتی ہے کہ الیکشن کے آخری روز تک وہ اپنے سیاسی مہم کو جاری رکھیں ۔
بہرحال مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مدمقابل ہیں ان دنوں لیول پلیئنگ فیلڈ پر زیادہ بات ہورہی ہے ایک تاثر یہ عام ہوتاجارہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاںمحمد نواز شریف اگلے وزیراعظم ہونگے اور اس مہم کو ن لیگ چلارہی ہے جبکہ اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کیاجارہا ہے چونکہ مرکز نگاہ پنجاب ہے کیونکہ وہاں سے اکثریت لینے والی جماعت ہی مرکز میں باآسانی حکومت بناسکتی ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے ترجمان مریم اورنگزیب کا پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوںلیتے ہوئے کہنا تھا کہ
پیپلز پارٹی والے لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا نہ روئیں، الیکشن کی فیلڈ میں آئیں، ایک طرف کہتے ہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ کلین سوئپ کریں گے۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ن لیگ کے ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی انتخابی مہم کا آغاز 21 اکتوبر کو ہوچکا ہے،لیول پلیئنگ فیلڈکا ابھی سے رونا ظاہر کرتا ہے
کہ عوام نے 21 اکتوبر کو نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اتحاد آج بھی قائم ہے، ملکی مسائل کے لیے سب کو اکٹھا ہونا ہوگا، دوسری جانب سیکرٹری اطلاعات پیپلزپارٹی فیصل کریم کنڈی نے ترجمان ن لیگ مریم نواز کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں
آپ ایون فیلڈ سمجھ رہی ہیں، اس مرتبہ لوگ سلیکشن قبول نہیں کریں گے۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا سن کر آپ کے چہرے پر مایوسی اور ماتھے پر پسینہ کیوں آتا ہے؟ لیول پلیئنگ فیلڈ ملے یا نہ ملے، پیپلزپارٹی1988 کی طرح انتخابات جیتے گی، پیپلز پارٹی کی قیادت مشکلات کا مقابلہ کرتی ہے، میدان نہیں چھوڑتی۔سیکرٹری اطلاعات پیپلزپارٹی کا کہنا تھا
کہ نواز شریف کی خواہش وزیراعظم بننا ہے، خواہشات پر کوئی پابندی نہیں، نواز شریف کی آمد پر لاہور لاتعلق رہا، پیپلزپارٹی 8 فروری کو لاہور میں بھی سرپرائز دیگی، آئندہ حکومت پیپلزپارٹی بنائیگی، ہوسکتا ہے کہ الیکشن کے بعد پی پی قیادت 2008ء کی طرح ن لیگ کو بھی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دے۔
بہرحال پی ڈی ایم کا اب کوئی وجود نہیں رہا ہے حسب ضرورت وہ ایک اتحاد بنی تھی جس میں اتحادی جماعتوں نے ملکر اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا تھا مگر اب تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے راستے جداکرکے اپنا انتخابی مہم اور اتحاد تشکیل دینے شروع کردیئے ہیں
مگر سب سے بڑی جنگ پنجاب میں لڑی جارہی ہے اور اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں مگر جیسے ہی عام انتخابات کا وقت قریب آتا رہے گا پاکستان استحکام پارٹی، ق لیگ سمیت دیگرسیاسی جماعتیں بھی اپنا زور لگانا شروع کردیں گی اور چھوٹی اتحادبھی تشکیل دی جائینگی
البتہ آئندہ آنے والے دنوں میں بہت ساری شمولیتی تقریبات منعقد ہونگی اس کے ساتھ ہی سیاسی بیٹھکیں، عوامی اجتماعات بڑے پیمانے پر ہونگی جن کامرکز پنجاب ہی ہوگا وہاں سے اکثریت لینے کے لیے تمام گھوڑے میدان میں دوڑائے جائینگے، جیت کا سہرا کس کے سرجائے گا، سیاسی ماحول خود واضح اشارہ دیتارہے گا۔